اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۳

یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قَسم کھائی گئی ہے ۔ بھٹکنے سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے سے مراد ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کر لینا۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں، ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گئے ہیں۔ در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں بہکے ہیں۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قَسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ لے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں، ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور مختلف اشیاء کی دھندلی شکلیں دیکھ کر ان کے بارے میں غلط اندازے کر سکتا ہے ۔ مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ اسے بھوت سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی رسی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے ۔ ریت سے کوئی چٹان ابھری دیکھ کر یہ خیال کر سکتا ہے کہ کوئی درندہ بیٹھا ہے ۔ لیکن جب تارے ڈوب جائیں اور صبح روشن نمودار ہو جائے تو ہر چیز اپنی اصلی شکل میں آدمی کے سامنے آؔ جاتی ہے ۔ اس وقت کسی چیز کی اصلیت کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش نہیں آتا۔ ایسا ہی معاملہ تمہارے ہاں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی ہے کہ ان کی زندگی اور شخصیت تاریکی میں چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے ۔ تم جانتے ہو کہ تمہارا یہ ’’صاحب‘‘ ایم نہایت سلیم الطبع اور دانا و فرزانہ آدمی ہے ۔ اس کے بارے میں قریش کے کسی شخص کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ گمراہ ہو گیا ہے ۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ کمال درجہ کا نیک نیت اور راستباز انسان ہے ۔ اس کے متعلق تم میں سے کوئی شخص کیسے یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر نہ صرف خود ٹیڑھی راہ اختیار کر بیٹھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اسی ٹیڑھے راستے کی طرف دعوت دینے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے ۔