اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۳۲

اصل الفاظ ہیں اِلَّا اللّٰمَمَ۔ عربی زبان میں لَمَم کا لفظ کسی چیز کی توڑی سی مقدار، یا اس کے خفیف سے اثر، یا اس کے محض قرب، یا اس کے ذرا سی دیر رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں اَلَمَّ بَالْمَکَانِ، وہ شخص فلاں جگہ تھوڑی  دیر ہی ٹھیرا، یا تھوڑی دیر کے لیے ہی وہاں گیا۔ اَلَمَّ بِا لظَّعَامِ، اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ بِہٖ لَمَمٌم اس دماغ ذرا سا کھسکا ہوا ہے ، یا اس میں کچھ جنون کی لٹک ہے ۔ یہ لفظ اس معنی میں بولتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک فعل کا ارتکاب کے ریب تک پہنچ گیا۔ فَرّاء کا قول ہے کہ میں نے عربوں کو اس طرح کے فقرے بولتے سنا ہے ضربہ مالمم القتل، فلاں شخص نے اسے اتنا مارا کہ بس کار ڈالنے کی کسر رہ گئی۔ اور اَلَمّ یفعل، قریب تھا کہ فلاں شخص یہ فعل کر گزرتا۔ شاعر کہاتا ہے اَلَمت فحیّت ثم قَا مت فودعت، ‘‘ وہ بس ذرا کی ذرا آئی سلام کیا، اٹھی اور رخصت ہو گئی‘‘۔
ان استعمالات کی بن پر اہل تفسیر میں بعض نے لمم سے مراد چھوٹے گناہ لیے ہیں۔ بعض جے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آدمی عملاً کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جائے مگر اس کا ارتکاب نہ کرے ۔ بعض اسے کچھ دیر کے لیے گناہ میں مبتلا ہونے اور پھر اس سے باز آ جانے کے معنی میں لیتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی گناہ کا خیال، یا اس کی خواہش، یا اس کا ارادہ تو کرے مگر عملاً کوئی اقدام نہ کرے ۔ اس سلسلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال حسب ذیل ہیں :
زید بن اسلم اور ابن زید کہتے ہیں، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ معاصی ہیں جن کا ارتکاب اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں لوگ کر چکے تھے ، پھر اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔
ابن عباسؓ کا دوسرا قول یہ ہے ، اور یہی حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن عاض، مجاہدؒ، حسن بصریؒ اور ابوصالحؒ کا قول بھی ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ یا کسی فحش فعل میں کچھ دیر کے لیے ، یا احیاناً مبتلا ہو جانا اور پھر اسے چھوڑ دینا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسؑود اور مسروق اور شعبی فرمانے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی معتبر روایات میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ اس سے مراد آدمی کا کسی بڑے گناہ کے قریب تک پہنچ جانا اور اس کے ابتدائی مدارج تک طے کر گزرنا مگر آخری مرحلے پر پہنچ کر رک جاتا ہے ۔ مثلاً کوئی شخص چوری کے لیے جائے، مگر چرانے سے باز رہے ۔ یا اجنبیہ سے اختلاط کرے ، مگر زنا کا اقدام نہ کرے ۔
حضرت عبداللہ بن زبیر، عِکرمہ، قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں جن کے لیے دنیا میں بھی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے اور آخرت میں بھی جن پر عذاب دینے کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی ہے ۔
سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے گناہ کا خیال دل میں آنا مگر عملاً اس کا ارتکاب نہ کرنا۔
یہ حضرات صحابہ و تابعین کی مختلف تفسیریں ہیں جو روایات میں منقول ہوئی ہیں۔ بعد کے مفسرین اور ائمہ و فقہاء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ یہ آیت اور سورہ نساء کی آیت 31 صاف طور پر گناہوں کو دو بڑی اقسام پر تقسیم کرتی ہیں، ایک کبائر، دوسرے صغائر۔ اور یہ دونوں آیتیں انسان کو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ کبائر اور فواحش سے پرہیز کرے تو اللہ تعالیٰ صغائر سے   در گزر فرمائے گا۔ اگر چہ بعض اکابر علماء نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ کوئی معصیت چھوٹی نہیں ہے بلکہ خدا کی معصیت بجائے خود کبیرہ ہے ۔ لیکن جیساکہ امام غزالیؒ نے فرمایا ہے ، کبائر اور صغائر کا فرق ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ذرائع معلومات سے احکام شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے وہ سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اب رہا یہ سوال کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس قسم کے گناہ صغیرہ اور کس قسم کے کبیرہ ہیں، تو اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ ’’ ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نصّ صریح نے حرام قرار دیا ہو، یا اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو، یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائاًی ہو، یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو، یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو‘‘۔ اس نوعیت کے گناہوں کے ماسوا جتنے افعال بھی شریعت کی نگاہ میں نا پسندیدہ ہیں وہ سب صغائر کی تعریف میں آتے ہیں۔ اسی طرح کبیرہ کی محض خواہش یا اس کا ارادہ بھی کبیرہ نہیں بلکہ صغیرہ ہے ۔ حتیٰ کہ کسی بڑے گناہ کے ابتدائی مراحل طے کر جانا بھی اس وقت تک گناہ کبیرہ نہیں ہے جب تک آدمی اس کا ارتکاب نہ کر گزرے ۔ البتہ گناہ صغیرہ بھی ایسی حالت میں کبیرہ ہو جاتا ہے جبکہ وہ دین کے استحقاق اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں استکبار  کے جذبہسے کیا جائے، اور اس کا مرتکب اس شریعت کو کسی اعتناء  کے لائق نہ سمجھے جس نے اسے ایک برائی قرار دیا ہے ۔