اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ النجم حاشیہ نمبر۴

مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کی وجہ سے تم اس پر یہ الزام لگاتے ہو کہ وہ گمراہ یا بد راہ ہو گیا ہے ، وہ اس نے اپنے دل سے نہیں گھڑ لی ہیں، نہ ان کی محرک اس کی اپنی خواہش نفس ہے ، بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس پر وحی کے ذریعہ سے نازل کی گئی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ اس کا خود نبی بننے کو جی نہیں چاہا تھا کہ اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے اس نے دعوائے نبوت کر دیا ہو، بلکہ خدا نے جب وحی کے ذریعہ سے اس کو اس منصب پر مامور کیا  تب وہ تمہارے درمیان تبلیغ رسالت کے لیے اٹھا اور اس نے تم سے کہا کہ میں تمہارے لیے خدا کا نبی ہوں۔ اسی طرح اسلام کی یہ دعوت، توحید کی یہ تعلیم، آخرت اور حشر و نشر اور جزائے اعمال کی یہ خبریں، کائنات و انسان کے متعلق یہ حقائق، اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے یہ اصول، جو وہ پیش کر رہا ہے ، یہ سب کچھ بھی اس کا اپنا بنایا ہوا کوئی فلسفہ نہیں ہے بلکہ خدا نے وحی کے ذریعہ سے اس کو ان باتوں کا علم عطا کیا ہے ۔ اسی طرح یہ قرآن جو وہ تمہیں سناتا ہے ، یہ بھی اس کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، بلکہ یہ خدا کا کلام ہے جو وحی کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’ آپؐ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ جو کچھ آپؐ کہتے ہیں وہ ایک وحی ہے جو آپؐ پر نازل کی جاتی ہے ‘‘، آپؐ کی زبان مبارک سے نکلے والی کن کن باتوں سے متعلق ہے ؟ آیا اس کا اطلاق ان سارے باتوں پر ہوتا ہے جو آپ بولتے تھے ، یا بعض باتوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور بعض باتوں پر نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے اس پر تو اس ارشاد کا اطلاق بدرجہ  اَولیٰ ہوتا ہے ۔ رہیں وہ دوسری باتیں جو قرآن کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے ادا ہوتی تھیں تو وہ لا محالہ تین ہی قسموں کی ہو سکتی تھیں۔
ایک قِسم کی باتیں وہ جو آپ تبلیغ دین اور دعوت الیٰ اللہ کے لیے کرتے تھے ، یا قرآن مجید کے مضامین اس کی تعلیمات اور اس کے احکام و ہدایات کی تشریح کے طور پر کرتے تھے ، یا قرآن ہی کے مقصد و مدعا کو پورا کرنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ ان کے متعلق ظاہر ہے کہ یہ شبہ کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ باتیں معاذاللہ، آپ اپنے دل سے گھڑتے تھے ۔ ان امور میں تو آپ کی حیثیت در حقیقت قرآن کے سرکاری ترجمان، اور اللہ تعالیٰ کے نمائندہ مجاز کی تھی۔ یہ باتیں اگرچہ اس طرح لفظاً لفظاً آپؐ پر نازل نہیں کی جاتی تھیں جس طرح قرآن آپ پر نازل کیا جاتا تھا، مگر یہ لازماً تھیں اسی علم پر مبنی جو وحی کے ذریعہ سے آپ کو دیا گیا تھا ان میں اور قرآن میں فرق صرف یہ تھا کہ قرآن کے الفاظ اور معانی سب کچھ اللہ کی طرف سے تھے ، اور ان دوسری باتوں میں معانی و مطالب وہ تھی جو اللہ نے آپ کو سکھائے تھے اور ان کو ادا آپؐ اپنے الفاظ میں کرتے تھے ۔ اسی فرق کی بنا پر قرآن کو وحی جَلی، اور آپؐ کے ان دوستے ارشادات کو وحی خَفِی کہا جاتا ہے ۔
دوسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپ اعلائے کلمۃ اللہ کی جد جہد اور اقامت دین کی خدمات کے سلسلے میں کرتے تھے ۔ اس کام میں آپؐ کو مسلمانوں کی جماعت کے قائد و رہنما کی حیثیت سے مختلف نوعیت کے بے شمار فرائض انجام دینے ہوتے تھے جن میں بسا اوقات آپؐ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ بھی لیا ہے ، اپنی رائے چھوڑ کر ان کی رائے بھی مانی ہے ، ان کے دریافت کرنے پر کبھی کبھی یہ صراحت بھی فرمائی ہے کہ یہ بات میں خدا کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی رائے کے طور پر کہہ رہا ہوں، اور متعدد بار ایسا بھی ہوا ہے کہ آپؐ  نے اپنے اجتہاد سے کوئی بات کی ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف ہدایت آ گئی ہے ۔ اس نوعیت کی جتنی باتیں بھی آپؐ نے کی ہیں، ان میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی اور قطعاً نہ ہو سکتی تھی جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ رہا یہ سوال کہ کیا وہ وحی پر مبنی تھیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بجز ان باتوں کے جن میں آپؐ نے خود تصریح فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے نہیں ہیں، یا جن میں آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ طلب فرمایا ہے اور ان کی رائے قبول فرمائی ہے ، یا جن میں آپؐ سے کوئی قول و فعل صادر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف ہدایت نازل فرما دی ہے ، باقی تمام باتیں اسی طرح وحی خفی پر پر مبنی تھیں جس طرح پہلی نوعیت کی باتیں۔ اس لیے کہ دعوت اسلامی کے قائد و رہنما اور جماعت مومنین کے سردار اور حکومت اسلامی کے فرمانروا کا جو منصب آپؐ کو حاصل تھا وہ آپؐ  کا خود ساختہ یا لوگوں کا عطا کردہ نہ تھا بلکہ اس پر آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے تھے ، اور اس منصب کے فرائض کی ادائیگی میں آپؐ جو کچھ کہتے اور کرتے تھے اسمیں آپؐ کی حیثیت مرضی الٰہی کے نمائندے کی تھی۔ اس معاملے میں آپ نے جو باتیں اپنے اجتہاد سے کی ہیں ان میں بھی آپؐ کا اجتہاد اللہ کو پسند تھا اور علم کی اس روشنی سے ماخوذ تھا جو اللہ نے آپؐ  کو دی تھی۔ اسی لیے جہاں آپؐ کا اجتہاد ذرا بھی اللہ کی پسند سے ہٹا ہے وہاں فوراً وحی جلی سے اس کی اصلاح کر دی گئی ہے ۔ آپؐ کے بعض اجتہادات کی یہ اصلاح بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کے باقی تمام اجتہادات عین مرضی الٰہی کے مطابق تھے ۔

تیسری قِسم کی باتیں وہ تھیں جو آپؐ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کے عام معاملات میں کرتے تھے ، جن کا تعلق فرائض نبوت سے نہ تھا، جو آپؐ نبی ہونے سے پہلے بھی کرتے تھے اور نبی ہونے کے بعد بھی کرتے رہے ۔ اس نوعیت کی باتوں کے متعلق سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے بارے میں کفار سے کوئی جھگڑا نہ تھا۔ کفار نے ان کی بنا پر آپؐ کو گمراہ اور بد راہ نہیں کہا تھا بلکہ پہلی دو قِسم کی باتوں پر وہ یہ الزام لگاتے تھے ۔ اس لیے وہ سرے سے زیر بحث ہی نہ تھیں کہ اللہ تعالیٰ انکے بارے میں یہ آیت ارشاد فرماتا۔ لیکن اس مقام پر ان کے خارج از بحث ہونے کے باوجود یہ امر واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے کوئی بات اپنی زندگی کے اس نجی پہلو میں بھی کبھی خلاف حق نہیں نکلتی تھی، بلکہ ہر وقت ہر حال میں آپ کے اقوال و افعال ان حدود کے اندر محدود رہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبرانہ اور متیقانہ زندگی کے لیے آپؐ کو بتا دی تھیں۔ اس لیے در حقیقت وحی کا نور ان میں بھی کار فرما تھا۔ یہی بات ہے جو بعض صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہوئی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر حضورؐ نے فرمایا لا اقول اِلّا حقّاً، ’’ میں کبھی حق کے سوا کوئی بات نہیں کہتا‘‘۔ کسی صحابی نے عرض کیا فانّک تُداعبُنا یا رسول اللہ،’’ یا رسول اللہ، کبھی کبھی آپ ہم لوگوں سے ہنسی مذاق بھی تو کر لیتے ہیں‘‘۔ فرمایا انی لا اقول الا حقّا، ’’ فی الواقع میں حق کے سوا کچھ نہیں کہتا‘‘۔ مسند احمد اور ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سنتا تھا وہ لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے محفوظ کر لوں۔ قریش کے لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہنے لگے تم ہر بات لکھتے چلے جاتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انسان ہیں، کبھی غصے میں بھی کوئی بات فرما دیتے ہیں۔ اس پر میں نے لکنا چھوڑ دیا۔ بعد میں اس بات کا ذکر میں نے حضورؐ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا :اکتب فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منّی الّا الحق، تم لکھے جاؤ، اس ذات کی قَسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلی ہے ‘‘۔ (اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب تفہیمات، حصہ اوّل، مضمون ’’رسالت اور اس کے احکام‘‘)۔