سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۱۵ |
|
اصل لافاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کا لبد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی، اسی طرح پہلا جِن خالص آگ کے شعلے، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اس پہلے جِن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا۔ اگر چہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تو وہ خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے، لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں۔ |