اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۳۶

اس کی تشریح آگے کا یہ فقرہ کر رہا ہے کہ مجرم وہاں اپنے چہروں سے پہچان لیے جائیں گے ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس عظیم الشان مجمع میں جہاں تمام اولین و آخرین اکٹھے ہوں گے، یہ پوچھتے پھرنے کی ضرورت  نہ ہوگی کہ کون کون لوگ مجرم ہیں۔ نہ کسی انسان یا جن سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت پیش آئے گی کہ وہ مجرم ہے یا نہیں۔ مجرموں کے اترے ہوئے چہرے اور ان کی خوف زدہ آنکھیں اور ان کی گھبرائی ہوئی صورتیں اور ان کے چھوٹتے ہوئے پسینے خود ہی یہ راز فاش کر دینے کے لیے کافی ہوں گے کہ وہ مجرم ہیں۔ پولس کے گھیرے میں اگر ایک ایسا مجمع آ جائے جس میں بے گناہ اور مجرم، دونوں قسم کے لوگ ہوں، تو بے گناہوں کے چہرے کا اطمینان اور مجرموں کے چہروں کا اضطراب بیک نظر بتا دیتا ہے کہ اس مجمع میں مجرم کو ن ہے اور بے گناہ کون۔ دنیا میں یہ کلیہ بسا اوقات اس لیے غلط ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی پولیس کے لیے لاگ انصاف پسند ہونے پر لوگوں کو بھروسا نہیں ہوتا، بلکہ با رہا اس کے ہاتھوں مجرموں کی بہ نسبت شریف لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں، اس لیے یہاں یہ ممکن ہے کہ اس پولیس کے گھیرے میں آ  کر شریف لوگ مجرموں سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو جائیں۔ مگر آخرت میں، جہاں ہر شریف آدمی کو اللہ تعالیٰ کے انصاف پر کامل اعتماد ہو گا، یہ گھبراہٹ صرف ایک ان ہی لوگوں پر طاری ہو گی جن کے ضمیر خود اپنے مجرم ہونے سے آگاہ ہونگے  اور جنہیں میدان حشر میں پہنچتے ہی یقین ہو جائے گا کہ اب ان کی وہ شامت آ گئی ہے جسے ناممکن یا مشتبہ سمجھ کر وہ دنیا میں جرائم کرتے رہے تھے۔