اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۳۷

جرم کی حقیقی بنیاد قرآن کی  نگاہ میں یہ ہے کہ بندہ جو اپنے رب کی نعمتوں سے متمتع ہو رہا ہے،اپنے نزدیک یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ نعمتیں کسی کی دی ہوئی نہیں ہیں بلکہ آپ سے آپ اسے مل گئی ہیں، یا یہ کہ یہ نعمتیں خدا کا عطیہ نہیں بلکہ اس کی اپنی قابلیت یا خوش نصیبی کا ثمرہ ہیں، یا یہ کہ یہ ہیں تو خدا کا عطیہ مگر اس خدا کا اپنے بندے پر کوئی حق نہیں ہے۔ یا یہ کہ خدا نے خود یہ مہربانیاں اس پر نہیں کی ہیں بلکہ یہ کسی دوسری ہستی نے اس سے کروا دی ہیں۔ یہی وہ غلط تصورات ہیں جن کی بنا پر آدمی خدا سے بے نیاز اور اس کی اطاعت و بندگی سے آزاد ہو کر دنیا میں وہ افعال کرتا ہے جن سے خدا نے منع کیا ہے اور وہ افعال نہیں کرتا جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ اس لحاظ سے ہر جرم اور ہر گناہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی تکذیب ہے قطع نظر اس سے کہ کوئی شخص زبان سے ان کا انکار کرتا ہو یا اقرار۔ مگر جو شخص فی الواقع تکذیب کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ اس کے ذہن کی  گہرائیوں میں تصدیق موجود ہوتی ہے، وہ احیاناً کسی بشری کمزوری سے کوئی قصور کر بیٹھے تو اس پر استغفار کرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیز اسے مکذبین میں شامل ہونے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے سوا باقی تمام مجرم در حقیقت اللہ کی نعمتوں کے مکذب  اور اس کے احسانات کے منکر ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ جب تم لوگ مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو جاؤ گے اس وقت ہم دیکھیں گے کہ تم ہمارے کس کس احسان کا انکار کرتے ہو۔ سورہ تکاثر میں یہی بات اس طرح فرمائی گئی ہے کہ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ، اس روز ضرور تم سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس کی جائے گی جو تمہیں دی گئی تھیں۔ یعنی پوچھا جائے گا کہ یہ نعمتیں ہم نے تمہیں دی تھیں یا نہیں؟ اور انہیں پاکر تم نے اپنے محسن کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا؟ اور اس کی نعمتوں کو کس طرح استعمال کیا؟