اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۴۹

اصل الفاظ ہیں مِنْ دُوْنِھِمَا جَنَّتٰن۔ دُوْن کا لفظ عربی زبان میں تین مختلف معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک، کسی اونچی چیز کے مقابلے میں نیچے ہونا۔ دوسرے، کسی افضل و اشرف چیز کے مقابلے میں کم تر ہونا۔ تیسرے، کسی چیز کے ماسوا یا اس کے علاوہ ہونا۔ اس اختلاف معنی کی بنا پر ان الفاظ میں ایک احتمال یہ ہے کہ ہر جنَّتی کو پہلے کے دو باغوں کے علاوہ یہ دو باغ اور دیے جائیں گے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ دو باغ اوپر کے دونوں باغوں کی بہ نسبت مقام یا مرتبے میں فر و تر ہونگے یعنی پہلے دو باغ یا تو بلندی پر ہونگے اور یہ ان سے نیچے واقع ہونگے، یا پہلے دو باغ بہت اعلیٰ درجہ کے ہونگے اور یہ ان کے مقابلے میں کم تر  درجہ کے ہونگے۔ اگر پہلے احتمال کو اختیار کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ دو مزید باغ بھی ان ہی جنتیوں کے لیے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اور دوسرے احتمال کو اختیار کرنے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں۔ اور یہ دو باغ اصحاب الیمین کے لیے۔ اس دوسرے احتمال کو جو چیز تقویت پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ سورہ واقعہ میں نیک انسانوں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک سابقین، جن کو مقربین بھی کہا گیا ہے، دوسرے اصحاب الیمین، جن کو اصحاب المیمنہ کے نا سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ اور ان دونوں کے لیے دو جنتوں کے اوصاف الگ الگ ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ مزید براں اس احتمال کردہ حدیث بھی تقویت پہنچاتی ہے جو حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ان کے صاحبزادے ابوبکر نے روایت کی ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، دو جنتیں سابقین، یا مقربین کے لیے ہونگی جن کے برتن اور آرائش کی ہر چیز سونے کی ہو گی، اور دو جنتیں تابعین، یا اصحاب الیمین کے لیے ہونگی جن کی ہر چیز چاندی کی ہو گی(فتح الباری، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ رحمٰن)۔