اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الرحمٰن حاشیہ نمبر۵

اصل میں لفظ النجم استعمال ہوا ہے جس کے معروف اور متبادر  معنی تارے کے ہیں۔ لیکن لغت عرب میں یہ لفظ ایسے پودوں اور بیل بوٹوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے جن کا تنا نہیں ہوتا، مثلاً ترکاریاں، خربوزے، تربوز  وغیرہ۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ابن عباس سعید بن جبیر، سدی اور سفیان ثوری اس کو بے تنے والی نباتات کے معنی میں لیتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد لفظ الشجر (درخت) استعمال فرمایا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہی معنی زیادہ مناسبت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے مجاہد، قتادہ اور حسن بصری کہتے ہیں کہ نجم سے مراد یہا بھی زمین کے بوٹے نہیں بلکہ آسمان کے تارے ہی ہیں، کیوں کہ یہی اس کے معروف معنی ہیں، اس لفظ کو سن کر سب سے پہلے آدمی کا ذہن اسی معنی کی طرف جاتا ہے، اور شمس و قمر کے بعد تاروں کا ذکر بالکل فطری مناسبت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ مفسرین و مترجمین کی اکثریت نے اگر چہ پہلے معنی کو ترجیح دی ہے، اور اس کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا، لیکن ہمارے نزدیک حافظ ابن کثیر کی رائے صحیح ہے کہ زبان اور مضمون دونوں کے لحاظ سے دوسرا مفہوم زیادہ قابل ترجیح نظر آتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر بھی نجوم اور شجر کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر آیا ہے۔ اور وہاں نجوم کو تاروں کے سوا اور کسی معنی میں نہیں لیا جا سکتا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں اَلَمْ تَرَاَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ و الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَا بُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَالنَّاسِ …………… (الحج۔18)۔ یہاں نجوم کا ذکر شمس و قمر کے ساتھ ہے اور شجر کا ذکر پہاڑوں اور جانوروں کے ساتھ، اور فرمایا گیا ہے کہ یہ سب اللہ کے آگے سجدہ ریز ہیں۔