اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الواقعہ حاشیہ نمبر۱

اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے، کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمانکا یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوئے لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل نا ممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوئے ہم کیسے مان لیں؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہو گا۔

اس ارشاد میں قیامت کے لیے ’’واقعہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ ہونے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو ’’وَقْعَۃ‘‘ کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہو جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَ قْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جا نا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہو گا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔