اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الواقعہ حاشیہ نمبر۱۷

اس سے مراد دنیا کی وہ نیک خواتین ہیں جو اپنے ایمان و عمل صالح کی  بنا پر جنت میں جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو وہاں جوان بنا دے گا، خواہ وہ کتنی ہی بوڑھی ہو کگر مری ہوں۔ نہایت خوبصورت بنا دے گا، خواہ دنیا میں وہ حسین رہی ہوں یا نہ رہی ہوں۔ باکرہ بنا دیگا، خواہ دنیا میں وہ کنواری مری ہوں یا بال بچوں والی ہو کر۔ان کے شوہر بھی اگر ان کے ساتھ جنت میں پہنچیں گے تو وہ ان سے ملا دی جائیں گی،ورنہ اللہ تعالیٰ کسی اور جنتی سے ان کو بیاہ دے گا۔ اس آیت کی یہی تشریح متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  سے منقول ہے۔ شمائیل ترمذی میں روایت ہے کہ ایک بڑھیا نے حضور سے عرض کیا میرے حق میں جنت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہ ہوگی۔ وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی تو آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ اسے بتاؤ، وہ بڑھاپے کی حالت میں داخل جنت نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور باکرہ بنا دیں گے ‘‘۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سلمہ بن یزید کی یہ روایت نقل کی ہے کہ میں نے اس آیت کی تشریح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا، ’’ اس سے مراد دنیا کی عورتیں ہیں، خواہ وہ باکرہ مری ہوں یا شادی شدہ ‘‘۔ طبرانی میں حضرت ام سلمہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں وہ جنت کی عورتوں کے متعلق قرآن مجید کے مختلف مقامات کا مطلب حضورؐ سے دریافت فرماتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضورؐ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ھن اللواتی قبضن فی دارلدنیا عجائز رمصاً شمطاً خلقھن اللہ بعد الکبر فجعلھن عذاریٰ۔ ’’ یہ وہ عورتیں ہیں جو دنیا کی زندگی میں مری ہیں۔ بوڑھی پھونس،آنکھوں میں چیپڑ، سر کے بال سفید۔ اس بڑھاپے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو پھر سے باکرہ پیدا کر دے گا’’۔ حضرت ام سلما پوچھتی ہیں اگر کسی عورت کے دنیا میں کئی شوہر رہ چکے ہوں اور وہ سب جنت میں جائیں تو وہ ان میں سے کس کو ملے گی؟ حضورؐ فرماتے ہیں : انھا تُخیَّر فتختار احسنہم خلقا فتقول یا رب ان ھٰذا کان احسن خلقاً معی فزوجنیھا، یا ام سلمہ، ذھب حسن الخلق بخیر الدنیا والاٰخرۃ۔ ’’ اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جسے چاہے چن لے،اور وہ اس شخص کے چنے گی جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گی کہ اے رب، اس کا برتاؤ میرے ساتھ سب سے اچھا تھا اس لیے مجھے اسی کی بیوی بنا دے۔ اے ام سلمہ، حسن اخلاق دنیا اور آخرت کی ساری بھلائی لوٹ لے گیا ہے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ رحمٰن، حاشیہ 51 )۔