اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورۃ الواقعہ

 

                                                     
۳
۲
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام: پہلی ہی آیت کے لفظ اَلْواقِعَہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانہ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس کے سورتوں کی جو ترتیب نزول بیان کی ہے اس میں وہ فرما رہے ہیں کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی، پھر الواقعہ اور اس کے بعد الشعراء(الاتْقان للسُّیوطی)۔ یہی ترتیب عکرمہ نے بھی بیان کی ہے (بیہقی، دلائل النبوۃ)۔
اس کی تائید اس قصہ سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بارے میں ابن ہشام نے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ اپنی بہن کے گھر میں داخل ہوئے تو سورہ طٰہٰ پڑھی جا رہی تھی۔ ان کی آہٹ سن کر ان لوگوں کو قرآن کے اوراق چھپا دیے۔ حضرت عمرؓ پہلے تو بہنوئی پر پِل پڑے اور جب بہن ان کو بچانے آئیں تو ان کو بھی مارا یہاں تک کہ ان سر پھٹ گیا۔ بہن کا خون بہتے دیکھ کر حضرت عمرؓ کو سخت ندامت ہوئی،اور انہوں نے کہا، اچھا مجھے وہ صحیفہ دکھاؤ جسے تم نے چھپا لیا ہے۔ دیکھوں تو سہی اس میں کیا لکھا ہے۔ بہن نے کہا ’’آپ اپنے شرک کی وجہ سے نجس ہیں، وانہٗ لا یمسھا الا اطاھر، ’’ اس صحیفے کو صرف طاہر آدمی ہی ہاتھ لگا سکتا ہے ‘‘۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اٹھ کر غسل کیا اور پھر اس صحیفے کو لے کر پڑھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت سورہ واقعہ نازل ہو چکی تھی، کیونکہ اسی میں آیت لا یمسہ الا المطھرون وارد ہوئی ہے۔ اور یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ ہجرت حبشہ کے بعد 5 نبوی میں ایمان لائے ہیں۔

موضوع اور مضمون:  اس کا موضوع آخرت، توحید اور قرآن کے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے۔ وہ سب سے زیادہ جس چیز کو ناقابل یقین قرار دیتے تھے وہ یہ تھی کہ کبھی قیامت بر پا ہوگی جو میں زمین و آسمان کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر تمام مزے ہوئے انسان دوبارہ جِلا اٹھائے  جائیں گے اور ان کا محاسبہ ہو گا اور  نیک انسان جنت کے باغوں میں رکھے جائیں گے اور گناہ گار انسان دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جن کا عالم واقعہ میں پیش آنا غیر ممکن ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ جب وہ واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ پیش نہیں آیا ہے، نہ کسی کی یہ طاقت ہو گی کہ اسے آتے آتے روک دے، یا واقعہ سے غیر واقعہ بنا دے۔ اس وقت لازماً تمام انسان تین طبقات میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک، سابقین۔ دوسرے، عام صالحین، تیسرے وہ لوگ جو آخرت کے منکر رہے اور مرتے دم تک کفر و شرک اور گناہ کبیرہ پر جمے رہے۔ ان تینوں طبقات کے ساتھ جو معاملہ ہو گا اسے تفصیل کے ساتھ آیت 7 سے 56 تک بیان کیا گیا ہے۔
اس کے بعد آیت 57 سے آیت 74 تک اسلام کے ان دونوں بنیادی عقائد کی صداقت پر پے درپے دلائل دیے گئے ہیں جن کو ماننے کفار انکار کر رہے تھے، یعنی توحید اور آخرت۔ان دلائل میں زمین و آسمان کی دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ کر انسان کو خود اس کے اپنے وجود کی طرف اور اس غذا کی طرف جسے وہ کھاتا ہے اور اس پانی کی طرف جسے وہ پیچا ہے اور اس آگ کی طرف جس سے وہ اپنا کھانا پکاتا ہے، توجہ دلائی گئی ہے۔ اور اسے اس سوال پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ تو جس خدا کے بنانے سے بنا ہے اور جس کے دیے ہوئے سامان زیست پر پل رہا ہے اس کے مقابلے  میں خود مختار ہونے، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی بجا لانے کا آخر تجھے حق کیا ہے؟ اور اس کے متعلق تو نے یہ کیسے گمان کر لیا کہ وہ ایک دفعہ تجھے وجود میں لے آنے کے بعد ایسا عاجز و درماندہ ہو جاتا ہے کہ دوبارہ تجھ کو وجود میں لانا چاہے بھی تو نہیں لا سکتا؟
پھر آیت 75 سے 82 تک قرآن کے بارے میں ان کے شکوک کی تردید کی گئی ہے اور ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بد نصیبو، یہ عظیم الشان نعمت تمہارے پاس آئی ہے اور تم نے اپنا حصہ اس نعمت میں یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹی بے اعتنائی برتتے ہو۔ قرآن کی صداقت پر دو مختصر سے فقروں میں یہ بے نظیر دلیل پیش کی گئی ہے کہ اس پر کوئی غور کرے تو اس کے اندر ویسا ہی محکم نظام پائے گا جیسا کائنات کے تاروں اور سیاروں کا نظام محکم ہے، اور یہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا مصنف وہی ہے جس نے کائنات کا یہ نظام بنایا ہے۔ پھر کفار سے کہا گیا ہے کہ یہ کتاب اس نوشتہ تقدیر میں ثبت ہے جو مخلوقات کی دست رس سے باہر ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس شیاطین لاتے ہیں، حالانکہ لوح محفوظ سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جس ذریعہ سے یہ پہنچتی ہے اس میں پاک نفس فرشتوں کے سوا کسی کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے۔
 آخر میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ تو کتنی ہی لن ترانیاں ہانکے اور اپنی خود مختاری کے گھمنڈ میں کتنا ہی حقائق کی طرف سے اندھا ہو جائے، مگر موت کا وقت تیری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت تو بالکل بے بس ہوتا ہے۔اپنے ماں باپ کو نہیں بچا سکتا۔اپنی اولاد کو نہیں بچا سکتا۔ اپنے پیروں اور پیشواؤں اور محبوب ترین لیڈروں کو نہیں بچا سکتا۔ سب تیری آنکھوں کے سامنے مرتے ہیں اوور تو دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی بالا تر طاقت تیرے اوپر فرمانروا نہیں ہے اور تیرا یہ زعم درست ہے کہ دنیا میں جس تو ہی تو ہے، کوئی خدا نہیں ہے، تو کسی مرنے والے کی نکلتی ہوئی جان کو پلٹا کیوں نہیں لاتا؟ جس طرح تو اس معاملہ میں بے بس ہے اسی طرح خدا کے محاسبے اور اس کی جزا و سزا کو بھی روک دینا تیرے اختیار میں نہیں ہے۔ تو خواہ مانے یا نہ مانے، موت کے بعد ہر مرنے والا اپنا انجام دیکھ کر رہے گا۔ مقربین میں سے ہو تو مقربین کا انجام دیکھے گا۔ صالحین میں سے ہو تو صالحین کا انجام دیکھے گا۔ اور جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہو تو وہ انجام دیکھے گا جو ایسے مجرموں کے لیے مقدر ہے۔

www.tafheemulquran.net