اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۱۳

اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مال تمہارے پاس ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے ۔ ایک دن تمہیں لازماً اسے چھوڑ کر ہی جانا ہے  اور اللہ ہی اس کا وارث ہونے والا ہے ، پھر کیوں نہ اپنی زندگی میں اسے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ اللہ کے ہاں اس کا اجر تمہارے لیے ثابت ہو جائے۔ نہ خرچ کرو گے تب بھی یہ اللہ ہی کے پاس واپس جا کر رہے گا، البتہ فرق یہ ہو گا کہ اس پر تم کسی اجر کے مستحق نہ ہو گے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے تم کو کسی فقر اور تنگ دستی کا اندیشہ لاحق نہ ہونا چاہیے ، کیونکہ جس خدا کی خاطر تم اسے خرچ کرو گے وہ زمین و آسمان کے سارے خزانوں کا مال ہے ، اس کے پاس تمہیں دینے کو بس اتنا ہی کچھ نہ تھا جو اس نے آج تمہیں دے رکھا ہے ،بلکہ کل وہ تمہیں اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے یہی بات دوسری جگہ اس طرح فرمائی گئی ہے :
قُلْاِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ، وَمَآ اَنْفَقُتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرَّا زِقِیْنَo (سبا۔ 39)۔   

اے نبیؐ، ان سے کہو کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے ، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہی مزید رزق تمہیں دیتا ہے اور وہ بہترین رازق ہے ۔