اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۱۴

یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ’’ فتح‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لا حد ھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احد کم ولا نصیفہ۔ ’’ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا‘‘ (ان جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو تعیم اصفہانی)۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرمانے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوسران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا ’’ تم لوگ اپنی پچھلی خدامت کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو‘‘۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالدؓ اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھا اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ، بہر حال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش  کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔