اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحدید حاشیہ نمبر۸

اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے ، بلکہ آیت نمبر 10 کے الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ یہاں اس سے مراد اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا ہے جو اس وقت کفر کے مقابلے میں اسلام کو ر بلند کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں برپا تھی۔ خاص طور پر دو ضرورتیں اس وقت ایسی تھیں جن کے لیے اسلامی حکومت کو مالی مدد کی سخت حاجت در پیش تھی ایک، جنگی ضروریات۔ دوسرے ، ان مظلوم مسلمانوں کو سہارا دینا جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصے سے ہجرت کر کے مدینے آئے تھے اور آ رہے تھے ۔ مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لیے اپنی ذات پر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت اور وسعت سے بہت زیادہ تھا، اور اسی چیز کی داد ان کو آگے آیات 10۔12۔18۔اور 18 میں دی گئی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر ایمان لانے کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں ۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔