اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۲۶

اس کی تشریح سورہ کے دیباچے میں کی جاچکی ہے۔ بعض مفسرین  نے اس حکم کو صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس تک محدود سمجھا ہے۔لیکن جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا ہے، صحیح ات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ ایک عام ہدایت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے اہل اسلام کو جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی مجلس میں پہلے سے کچھ لوگ بیٹے ہوں اور بعد میں مزید کچھ لوگ آئیں، تو یہ تہذیب پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خود نئے آنے والوں کو جگہ دیں اور حتیٰ الامکان کچھ سکڑ اور سمٹ کر ان کے لیے کشادگی پیدا کریں، اور اتنی شائستگی بعد کے آنے والوں میں ہونی چاہیے کہ وہ زبردستی ان کے اندر نہ گھسیں اور کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لایقیم الرجل الرجل من مجلسہ فی جلس فیہ و لکن تفسحوا وتو سعوا۔ ’’ کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے بلکہ تم لوگ خود دوسروں کے لیے جگہ کشادہ کرو‘‘۔ (مسند احمد،بخاری، مسلم)۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنہما۔ ’’ کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر دھس جائے’’(مسند احمد، ابو داؤد، ترمصی)۔