اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۲۹

حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ باتیں (یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضورؐ کو تنگ کر دیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے (ابن جریر)۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں، اور آپ اسے موقع دے دیتے، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف بر سر جنگ تھا۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو کانوں کے کچے ہیں، ہر ایک کی سن لیتے ہیں۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے (احکام القرآن الابن العربی)۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضورؐ نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے۔ فرمایا پھر کتنا؟ میں نے عرض کیا جس ایک جَو برابر سونا۔ فرمایا : انک لذھید، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کو مدورہ دیا (ابن جریر، ترمذی، مسند ابو یعلیٰ )۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ فرمانے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا۔ (ابن جریر، حاکم، ابنالمنذر، عبد بن حمید)۔