اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۷

یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس کی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک میں پیش آئے تھے، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضورؐ نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اَوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہو گئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے لیے راویوں نے کَا نَ بِہٖ لَمَمٌ  کے الفاظ استعمال کی ہیں۔ لَمَ عربی زبان میں دیوانگی کونہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں ’’ غصے میں پاگل ہو جانے ’’ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کر چکے تھے، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہو گیا۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے؟ حضورؐ نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’ ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ‘‘۔  اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ’’تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں۔ بار بار انہوں حضورؐ سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔ مگر ہر مرتبہ حضورؐ ان کو وہی جواب دیتے رہے۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا (اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا۔ انہیں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو 60 آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضورؐ نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفا رہ ادا کر سکیں (ابن جریر، مسند احمد، ابوداؤد، ابن ابی حاتم )۔
ظہار کا دوسرا واقعہ الَمہ بن صخر بَیاضی کا ہے۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بے صبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ماجرا عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا پھر 60 مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بے کھائے سوئے ہیں۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصلِ زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ 60 آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں (مسند احمد، ابوداؤد۔ترمذی)۔
تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کر لی۔ بعد میں حضورؐ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو(ابوداؤد، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ)۔
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا’’ یہ تیری بہن ہے؟ ‘‘ مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا (ابوداؤد)۔

یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔