اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المجادلہ حاشیہ نمبر۸

اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی‘‘۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے :
ایک مفہوم ان کا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں۔ ظاہلر یہ اور بکیر بن الاشج، اور یحیٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہو جائے؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار۔
دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آ جائے، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے، یا اس کی بیوی مر جائے، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ فقہاء میں سے طاؤس، مجاہد، شعبی، زہری، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک رکنا چاہے جو اس نے کہی ہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔
چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لی حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہو گیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا۔

اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے۔