اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۱۰

یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سانے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے۔ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے۔