اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۱۳

پچھلی آیت میں صرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔
ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر  خرچ فرمائے تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔
دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے۔ آخر کار اس بات پر اجماع  ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج 11،بی یوسف، صفحہ 9تا21) امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔

باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف  کیا جانا چاہیے کہ اس کا 5/1مصالح مسلمین پر، 5/1 بنی ہاشم و بنی المطلب پر، 5/1 مساکین پر اور 5/1 مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج)۔