اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۱۵

سلسلہ یان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں  و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف اموالِ فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ "جو کچھ رسول تمہیں دے " کے مقابلہ میں "جو کچھ نہ دے " کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ "جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ"۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو "جو کچھ دے " کے مقابلہ میں " جو کچھ نہ دے " فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع  پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔" (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا " اللہ تعالیٰ  نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے " اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں  اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلمسنداحمد سُند ابن ابی حاتم)