اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۲۰

یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہؔ اور رسولؔ، اور اقربائےؔ رسول، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابنن السبیل، اور مہاجرین اور انصار، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی جیسے بزرگ شامل تھے، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہاموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ  کر فتح کیے گئے تھے  ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کوبھیحضور نے غنائم کیطرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو نمایا ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا۔ رہا  خیبر، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے 36 حصے کیے، اور ان میں سے 18 حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کے کے باقی 18 حصے فوج میں تقسیم فرما دیے (ابو داؤد، بیہقی، کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیحیٰ بن آدم، فتوح البلدان للبلاذری، فتح القدیر لا بن ہمام)۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ااضی مفتوحہ کہ حکم، اگر چہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو، جیسی مکہ معظمہ کی تھی، جو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضورؐ نے اہل مکہ کے ساتھ کیا۔
مگر حضورؐ کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر، ’’ اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا‘‘ (ابوعبید)۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلالؓ نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحو ھا کما تقسم غنیمۃ العکر۔’’ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح  مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ‘‘(کتاب الخراج، ابو یوسف)دوسری طرف حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوامادۃً للمسلمین۔ ’’ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ‘‘ (ابو یوسف، ابو عبید)۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ ’’ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو‘‘ (ابو عبید ص 59۔ فتح الباری، ج 6، ص 138)۔ حضرت عمرؓ نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سوادِ عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا۔ معلوم ہو کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے (ابو یوسف،ابو عبید)۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے :
تریدو ن ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ (ابو عبید)
کیا آپ چاہتے ہیں کہبعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟
فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلو جھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا ابرائی (ابو یوسف )۔
ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہر گز مناسب نہیں ہے۔
فما لمن جاء بعد کم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفا سد و ابینکم فی لمیاہ (ابو عبید) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے۔
لولا اٰخر الناس مافنحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر(بخاری، موطّا، ابو عبید)۔
اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔
لا: ھٰذا عین المال، ولکنی احبسہٗ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین۔ (ابو عبید)۔
نہیں، یہ تو عین المال (Real estate) ہے۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں۔
لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں :
’’میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے۔خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہو ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ (ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک، شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، مصر، ان سب میں فوجیں رہنے چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟‘‘
 یہ بحث دو تین دن چلتی رہی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہ حضرات نے حضرت عمؓر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے۔ اس کے بعد انہوں ے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے،ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَدَوْلَۃً؍بَیْنَالْاَغْنِیَآءِمِنْکُمْ، ’’ تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگا تا رہے ‘‘۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے (کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ 23 تا 27 و 35 احکام القرآن للجصاص)۔
اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے، نسلاً بعد نسلٍ یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہونگے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانون پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے۔
اقرا ھل السود فی ارضیھم و ضرب علی رؤ سھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق (ص 57)۔
حضرت عمرؓ نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا۔
اذا اقرّالامام اھل العَنْوۃ فی ارضیھم توارثوھا و تبایعوھا (ص 84)۔
امام (یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا) جب مفتوحہ ممالم کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے۔
عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا (ابوعبید،ص49۔ ابویوسف ص 28)۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں (یعنی مہاجرین و انصار )۔ رأیٰ عمراب اصل الارض للمسلمین، ’’ عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مال مسلمان ہیں ‘‘(ابو عبید، ص 74)۔
اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے :
وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔
وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو۔
وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا۔
وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں۔
وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگ ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا۔
سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں۔
سابق حکومتوں کی املاک۔
(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، ج7، ص 116۔ 118۔ کتاب الخراج، یحیٰ  بن آدم، ص 22۔ 64۔ مغنی المحتاج، ج 3 ِ س 93۔ حاشیہ الدسوتی علی الشرح  لکبیر، ج 2، ص 190۔ غائیۃ المنتیہیٰ، ج 1، ص 467۔ 471)۔
یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں :
حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت (فقہاء کی اصطلاح میں امام)کو اختیار ہے، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کی مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی۔ (بدائع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ شرح العنایہ علی الہدایہ۔ فتح القدیر)۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے (یحیٰ بن آدم۔ کتاب الاموال لابی عبید)
مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی (حاشیہ الدسوتی )۔
حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگر چہ وقف میں شامل ہونگے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا (غایۃ المنتہیٰ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے )۔
شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں، اور تمام اموال غیر منقولہ (اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا (مغنی المحتاج)۔
بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سوادعراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البحلی سے، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا۔ چنانچہ 2۔3۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا۔ پھر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مستول لکنتم علیٰ ماجعل لکم، واری الجاس قد کثر و افادیٰ ان تردہ علیہم، ’’اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دا اور جو ابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو‘‘۔ حضرت جریرؓ نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمرؓ نے ان کو اس پر 80 دینار بطور انعام دیے (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا، حضرت عمرؓ ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے، اس لیے سعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے۔اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت اسواد بینکم’’ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا،‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر بر قرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا۔ رہی وہ بات جو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، تو اس پر ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔