اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۲۵

یہ منافقین کی دوسری کمزوری کا بیان ہے۔ پہلی کمزوری یہ تھی کہ وہ بزدل تھے، خدا سے ڈرنے کے بجائے انسانوں سے ڈرتے تھے اور اہل ایمان کی طرح کوئی بلند تر نصب العین ان کے سامنے نہ تھا جس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوتا۔ اور دوسری کمزوری یہ تھی کہ منافقت کے سوا کوئی قدر مشترک ان کے درمیان نہ تھی جو ان کو ملا کر ایک مضبوط جتھا بنا دیتی۔ ان کو جس چیز نے جمع کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اپنے شہر میں باہر کے آئے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و فرمانروائی چلتے دیکھ کر ان سب کے دل جل رہے تھے، اور اپنے ہی ہم وطن انصاریوں کو مہاجرین کی پذیرائی کرتے دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے۔ اس حسد کی بنا پر وہ چاہتے تھے کہ سب مل جل کر اور آس پاس کے دشمانان اسلام سے ساز باز کر کے اس بیرونی اثر و اقتدار کو کسی طرح ختم کر دیں۔ لیکن اس منفی مقصد کے  سوا کوئی مثبت چیز ان کو ملانے والی نہ تھی۔ ان میں سے ہر ایک سردار کا جتھا الگ تھا۔ ہر ایک اپنی چودھراہٹ چاہتا تھا۔ کوئی کسی کا مخلص دوست نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک کے دل میں دوسرے کے لیے اتنا بغض و حسد تھا کہ جسے وہ اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے اس کے مقابلے میں بھی وہ نہ آپس کی دشمنیاں بھول سکتے تھے، نہ ایک دوسرے کی جڑ کاٹنے سے باز رہ سکتے تھے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے غزوہ بنی نضیر سے پہلے ہی منافقین کی اندرونی حالت کا تجزیہ کر کے مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کی طرف سے فی الحقیقت کوئی خطرہ نہیں ہے، لہٰذا  تمہیں یہ خبریں سن سن کر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جب تم بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے نکلو گے تو یہ منافق سردار دو ہزار کا لشکر لے کر پیچھے سے تم پر حملہ کر دیں گے اور ساتھ ساتھ بنی قریظہ اور بنی غطفان کو بھی تم پر چڑھا لائیں گے۔ یہ سب محض لاف زنیاں ہیں جن کی ہوا آزمائش کی پہلی ساخت آتے ہی نکل جائے گی۔