اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۲۹

کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی ’’آج‘‘ ہے اور ’’کل‘‘ وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھا یا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار  رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہو چکا ہے، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے، اور وہاں وہ کچھ نہیں پا سکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہو جائے، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ جس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمایے، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف۔یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے، نہ دیکھے گا تو آپ ہی  اپنا مستقبل خراب کرے گا۔