اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۳۶

اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کو وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ تٰنِتُوْنَ (الروم: 26)
زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔
یُدَ بِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ 5)۔
آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔
لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید: 5)۔
زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔
وَلَمْیَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان : 2)
بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
بِیَدِہٖ مَلَکُوْ تُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس : 83)۔
ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج : 16)۔
جس چیز کا ارادہ کرے سے کر گزرنے والا۔
لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُوَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : 23)
جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سانے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔
وَاللہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد:41)
اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔
وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ۔ (المؤمنون : 88)۔
اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔
قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَالْمُلْکَ تُؤْتِیالْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِ کَ الْحَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَئ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران : 26 )۔
کہو، خدایا، ملک کے ملک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ در حقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل سے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو، جس کا قیام و بقاء عارضی دوقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔

لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے۔