اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الحشر حاشیہ نمبر۷

اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف اس مختصر سے بلیغ فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔یہ یہودی آخر پچھلے انبیاء کی امت ہی تو تھے۔ خدا کو مانتے تھے۔ کتاب کو مانتے تھے پچھلے انبیاء کو مانتے تھے۔ آخرت کو مانتے تھے۔ اس لحاظ سے در اصل وہ سابق مسلمان تھے۔ لیکن جب انہوں نے دین اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر محض اپنی خواہشات نفس اور دنیوی اغراض و مفاد کی خاطر کھلی کھلی حق دشمنی اختیار کی اور خود اپنے عہد و پیمان کا بھی کوئی پاس نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات ان سے پھر گئی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کو ان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی۔ اس لیے سب سے پہلے تو خود مسلمانوں کو ان کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے آپ کو یہودیوں کی طرح خدا کی چہیتی اولاد نہ سمجھ بیٹھیں اور اس خیال خام میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خدا کے آخری نبیؐ کی امت میں ہونا ہی بجائے خود ان کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی تائید کی ضمانت ہے جس کے بعد دین و اخلاق کے کسی تقاضے کی پابندی ان کی لیے ضروری نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کو بھی اس واقعہ سے عبرت دلائی گئی ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت و طاقت اور اپنے ذرائع و وسائل پر یہ اعتماد کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی۔ مدینہ کے یہودی اس سے ناواقف نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم یا قبیلے کی سر بلندی کے لیے نہیں اٹھے ہیں بلکہ ایک اصولی دعوت پیش کر رہے ہیں جس کے مخاطب سارے انسان ہیں اور ہر انسان، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو،اس دعوت کو قبول کر کے ان کی امت میں بلا امتیاز شامل ہو سکتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حبش کے بلالؓ، روم کے صہیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو امت مسلمہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے اہل خاندان کو حاصل تھی۔ اس لیے ان کے سامنے یہ کوئی خطرہ نہ تھا کہ قریش اور اوس اور خزرج ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ آپ جو اصولی دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ بینہٖ وہی ہے جو خود ان کے اپنے ابنیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں ایک نیا دین لے کر آیا ہوں جو پہلے کبھی کوئی نہ لایا تھا اور تم اپنا دین چھوڑ کر میرا یہ دین مان لو۔ بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ وہی دین ہے جو ابتدائے آفرینش سے خدا کے تمام ابنیاء لاتے رہے ہیں، اور اپنی توراۃ سے وہ خود اس کی تصدیق کر سکتے تھے کہ فی الواقع یہ وہی دین ہے، اس کے اصولوں میں دین ابنیاء کے اصولوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی بنا پر تو قرآن مجید میں ان سے کہا گیا تھا کہ وَ ا مِنُوْ ا بِمَآ اَنْزَ لْتُ مُصَدِّ قاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْ ا اَوَّلَ کَافِرٍ ؍ بِہٖ ؕ (ایمان لاؤ میری نازل کردہ اس تعلیم پر جو تصدیق کرتی ہے اس تعلیم کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، اور سب سے پہلے تم ہی اس کے کافر نہ بن جاؤ)۔ پھر ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس سیرت و اخلاق کے انسان ہیں، اور آپ کی دعوت قبول کر کے لوگوں کی زندگیوں میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہوا ہے۔ انصار تو مدت دراز سے ان کے قریب ترین پڑوسی تھے۔ اسلام لانے سے پہلے ان کی جو حالت تھی اسے بھی یہ لوگ دیکھ چکے تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کی جو حالت ہو گئی وہ بھی ان کے سامنے موجود تھی۔ پس دعوت اور داعی اور دعوت قبول کرنے کے نتائج، سب کچھ ان پر عیاں تھے۔ لیکن یہ ساری باتیں دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انہوں نے محض اپنے نسلی تعصبات اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اس چیز کے خلاف اپنی ساری طاقت لگا دی جس کے حق ہونے میں کم از کم ان کے لیے شک کی گنجائش نہ تھی اس دانستہ حق دشمنی کے بعد وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ ان قلعے انہیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کی طاقت جس کے مقابلے میں آ جائے وہ پھر کسی ہتھیار سے نہیں بچ سکتا۔