اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۱

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز  ہی میں اس واقعہ کی تفصیلات  بیان کر دی جائیں جس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تاکہ آگے کا مضمون سمجھنے میں آسانی ہو۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، غزوہ بن زبیر وغیرہ حضرات کی متفقہ روایت بھی یہی ہے کہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا تھا جب مشرکین مکہ کے نام حضرت حاطب ابی بُلْتَعہ کا خط پکڑا گیا تھا۔

قصہ یہ ہے کہ جب قریش کے لوگوں نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں، مگر چند مخصوص صحابہ کے سوا کسی کو یہ نہ بتایا کہ آپ کس مہم پر جانا چاہتے  ہیں۔ اتفاق سے اسی زمانے میں مکہ معظمہ سے ایک عورت آئی جو پہلے بنی عبدالمطلب کی لونڈی تھی اور پھر آزاد ہو کر گانے بجانے کا کام کرتی تھی۔ اس ے آ کر حضور سے اپنی تنگ دستی کی شکایت کی اور کچھ مال مدد مانگی۔ آپ نے بنی عبدالمطلب اور بنی المطلب سے اپیل کر کے اس کی حاجت پوری کر دی۔ جب وہ مکہ جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعہ اس سے ملے اور اس کو چپکے سے ایک خط بعض سرداران مکہ کے نام دیا اور اس دینار روپے تاکہ وہ راز فاش نہ کرے اور چھپا کر یہ خط ان لوگوں تک پہنچا دے۔ ابھی وہ مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس پر مطلع فرما دیا۔ آپ نے فوراً حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مقداد بن اسود کو اس کے پیچھے بھیجا اور حکم دیا کہ تیزی سے جاؤ، روضہ خاخ کے مقام پر (مدینہ سے 12 میل بجانب مکہ) تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطب کا ایک خط ہے۔ جس طرح بھی ہو اس سے وہ خط حاصل کرو۔ اگر وہ دے دے تو اسے چھوڑ دینا۔نہ دے تو اس کو قتل کر دینا۔ یہ حضرات جب اس مقام پر پہنچے تو عورت وہاں موجود تھی۔ انہوں نے اس سے خط مانگا۔ اس نے کہا میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ انہوں نے تلاشی لی۔ مگر کوئی خط نہ ملا۔ آخر کو انہوں نے کہا خط ہمارے حوالے کر ورنہ ہم برہنہ کر کے تیری تلاشی لیں گے۔ جب اس نے دیکھا کہ بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو اپنی چوٹی میں سے وہ خط نکال کر انہیں دے دیا اور یہ اسے حضورؐ کی خدمت میں لے آئے۔ کھول کر پڑھا گیا تو اس میں قریش کے لوگوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تم پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ (مختلف روایات میں خط کے الفاظ مختلف نقل ہوئے ہیں۔ مگر مدعا سب کا یہی ہے )۔ حضورؐ نے حضرت حاطب سے پوچھا، یہ کیا حرکت ہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ میرے معاملہ میں جلدی نہ فرمائیں۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس بنا پر نہیں کیا ہے کہ میں کافر و مرتد ہو گیا ہوں اور اسلام کے بعد اب کفر کو پسند کرنے لگا ہوں۔اصل بات یہ ہے کہ میرے اقرباء مکہ میں مقیم ہیں۔ میں قریش کے قبیلہ کا آدمی نہیں ہوں، بلکہ بعض قریشیوں کی سرپرستی میں وہاں آباد ہوا ہوں مہاجرین میں سے دوسرے جن لوگوں کے اہل و عیال مکہ میں ہیں ان کو تو ان کا قبیلہ بچا لے گا۔ مگر میرا کوئی قبیلہ وہاں نہیں ہے جسے کوئی بچانے والا ہو۔ اس لیے میں نے یہ خط اس خیال سے بھیجا تھا کہ قریش والوں پر میرا ایک احسان رہے جس کا لحاظ کر کے وہ میرے بال بچوں کو نہ چھیڑین۔ (حضرت حاطب کے بیٹے عبدالرحمٰن کی روایت یہ ہے کہ اس وقت حضرت حاطب کے بچے اور بھائی مکہ میں تھے، اور خود حضرت حاطب کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ماں بھی وہیں تھیں )۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاطب کی یہ بات سن کر حاضرین سے فرمایا : قَدْ صدقکم،’’ حاطب نے تم سے سچی بات ہی ہے ‘‘، یعنی ان  کے اس فعل کا اصل محرک یہی تھا، اسلام سے انحراف اور کفر کی حمایت کا جذبہ اس کا محرک نہ تھا۔ حضرت عمرؓ  نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن ماردوں،اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اس شخص نے جنگ بدر میں حصہ لیا ہے۔ تمہیں کیا خبر، ہو سکتا ہے کہ اللہ  تعالیٰ نے اہل بدر کو ملاحظہ فرما کر کہہ دیا ہو کہ تم خواہ کچھ بھی کرو، میں نے تم کو معاف کیا۔‘‘ (اس آخری فقرے  کے الفاظ مختلف روایات میں مختلف ہیں۔ کسی میں ہے قد غفر ت لکم، میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ کسی میں ہے انی غافر لکم، میں تمہیں بخش دینے والا ہوں۔ اور کسی میں ہے ساغفرلکم۔ میں تمہیں بخش دوں گا)۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ رو دیے اور انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ یہ ان کثیر التعداد روایات کا خلاصہ ہے جو متعدد معتبر سندوں سے بخاری، مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی،نسائی، ابن جریر طبری، ابن ہشام، ابن حبان اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مستند روایت  وہ ہے جو خود حضرت علیؓ کی زبان دے ان کے کاتب (سکرٹری ) عبید اللہ بن ابی رافع نے سنی اور ان سے حضرت علی کے پوتے حسن بن محمد بن حنفیہ نے سن کر بعد مے راویوں تک پہنچائی۔ ان میں سے کسی روایت میں بھی یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت حاطب کا یہ عذر قبول کر کے انہیں چھوڑ دیا گیاتھا۔