اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۲۲

اس مختصر سے فقرے میں دو بڑے اہم قانونی نکات بیان کیے گئے ہیں :
پہلا نکتہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت پر بھی اطاعت فی المعروف کی قید لگائی گئی ہے، حالانکہ حضورؐ کے بارے میں اس امر کے کسی ادنیٰ شبہ کی گنجائش بھی نہ تھی کہ آپ کبھی مجکر کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیا میں کسی مخلوق کی اطاعت قانون خداوندی کے حدود سے باہر جا کر نہیں کی جا سکتی، کیونکہ جب خدا کے رسول تک کی اطاعت معروف کی شرط سے مشروط ہے تو پھر کسی دوسرے کا یہ مقام کہاں ہو سکتا ہے کہ اسے غیر مشروط اطاعت کا حق پہنچے اور  اس کے کسی ایسے حکم یا قانون یا ضابطے اور رسم کی پیروی کی جائے جو قانون خداوندی کے خلاف ہو۔ اس قاعدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : لاگاعۃ فی معصیۃ اللہ، انما الطاعۃ فیالمعروف۔ ’’ اللہ کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے، اطاعت صرف معروف میں ہے ‘‘ (مسلم، ابوداؤد، نسائی)۔ یہی مضمون اکابر اہل علم نے اس آیت سے مستبط کیا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ تمہاری نافرمانی نہ کریں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی تک کی اطاعت کو اس شرط سے مشروط کیا ہے تو کسی اور شخص کے لیے یہ کیسے سزاوار ہو سکتا ہے کہ معروف کے سوا کسی معاملہ میں اس کی اطاعت کی جائے‘‘ (ابن جریر)۔ 
امام ابو بکر جصاص لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس کا نبی کبھی معروف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا، پھر بھی اس نے اپنے نبی کی نافرمانی سے منع کرتے ہوئے معروف کی شرط لگا دی تاکہ کوئی شخص کبھی اس امر کی گنجائش نہ نکال سکے کہ ایسی حالت میں بھی سلاطین کی اطاعت کی جائے جب کہ ان کا حکم اللہ کی اطاعت میں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ : من اطاع مخلوقاً فی معصیۃ الخالق سلَّط اللہ علیہ ذٰلک المخلوق، یعنی جو شخص خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر اسی مخلوق کو مسلط کر دیتا ہے ‘‘ (احکام القرآن)
علامہ آلوسی فرماتے ہیں :
’’ یہ ارشاد ان جاہلوں کے خیال کی تردید کرتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ اولیالامر کی اطاعت مطلقاً لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو رسول کی اطاعت پر بھی معروف کی قید لگا دی ہے، حالانکہ رسول کبھی معروف کے سوا کوئی حکم نہیں دیتا۔ اس سے مقصود لوگوں کو خیر دار کرنا ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے ‘‘ (روح المعانی)۔
پس در حقیقت یہ ارشاد اسلام میں قانون کی حکمرانی (Rule of Law) کا سنگ بنیاد ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر کام جو اسلامی قانون کے خلاف ہو، جرم ہے اور کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ ایسے کسی کام کا کسی کو حکم دے۔ جو شخص بھی خلاف قانون حکم دیتا ہے وہ خود مجرم ہے اور جو شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ کوئی ماتحت اس عذر کی بنا پر سزا سے نہیں بچ سکتا کہ اس کے افسر بالا نے اسے ایک ایسے فعل کا حکم دیا تھا جو قانون میں جرم ہے۔
دوسری بات جو آئنی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ ہے ہ اس آیت میں پانچ منفی احکام دینے کے بعد مثبت حکم صرف ایک ہی دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام بیک کاموں میں نبی صلی اللہ علیہ وسل کے احکام کی اطاعت کی جائے گی۔ جہاں تک برائیوں کا تعلق، وہ بڑی بڑی بُرائیاں گنا دی گئیں جن میں زمانہ جاہلیت کی عورتیں مبتلا تھیں اور ان سے باز رہنے کا عہد لے لیا گیا، مگر جہاں تک بھلائیوں کا تعلق ہے ان کی کوئی فہرست دے کر عہد نہیں لیا گیا کہ تم فلاں فلاں اعمال کر و گی بلکہ صرف وہی ہوں جن کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیا ہے تو عہد ان الفاظ میں لیا جانا چاہیے تھا کہ ’’ تم اللہ کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘ یا یہ کہ ’’ تم قرآن کے احکام کی نافرمانی نہ کرو گی‘‘۔ لیکن جب عہد ان الفاظ میں لیا گیا کہ ’’ جس بیک کام کا حکم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیں گے تم اس کی خلاف ورزی نہ کرو گی‘‘ تو اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے حضورؐ کو وسیع ترین اختیارات دیے گئے ہیں اور آپ کے تمام احکام واجب الاطاعت ہیں خواہ وہ قرآن میں موجود ہو یا نہ ہوں۔
اسی آئینی اختیار کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت لیتے ہوئے ان بہت سی برائیوں کے چھوڑنے کا عہد لیا جو اس وقت عرب معاشرے کی عورتوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور متعدد ایسے احکام دیے جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ اس کے لیے حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں :
ابن عباسؓ، ام سلمہؓ اور ام عطیہؓ انصاریہ وغیرہ کی روایات ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد لیا کہ وہ مرنے والوں پر نوحہ نہ کریں گی۔ یہ روایات بخاری، مسلم،نسائی اور ابن جریر نے نقل کی ہیں۔
ابن  عباسؓ کی ایک روایت میں تفصیل ہے کہ حضورؐ  نے حضرت عمرؓ کو عورتوں سے بیعت لینے کے لیے مامور کیا اور حکم دیا کہ ان کو نوحہ کرنے سے منع کریں، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے کپڑے پھاڑتی تھیں، منہ نوچتی تھیں، بال کاٹری تھیں اور سخت واویلا مچاتی تھیں (ابن جریر)۔
زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں کو اس سے منع کیا کہ ہو مرنے والوں پر نوحہ کرتے ہوئے اپنے منہ نوچیں اور گریبان پھاڑیں اور واویلا کریں اور شعر گا گا کر بین کریں (ابن جریر)۔ اسی کی ہم معنی ایک روایت ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ایک ایسی خاتون سے نقل کی ہے جو بیعت کرنے والیوں میں شامل تھیں۔
قتادہ اور حسن بصری رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ جو عہد حضورؐ نے بیعت لیتے وقت عورتوں سے ہیے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ غیر محرم مردوں سے بات نہ کریں گی۔ ابن عباس کی روایت میں اس کی یہ وضاحت ہے کہ غیر مردوں سے تخلیہ میں بات نہ کریں گی۔ قتادہ نے مزید وضاحت یہ کی ہے کہ حضورؐ کا یہ رشاد سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے عرض کیا یا رسول اللہ کبھی ایسا ہوتا ہے چہ ہم گھر پر نہیں ہوتے اور ہمارے ہاں کوئی صاحب ملنے آ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میری مراد یہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کا کسی آنے والے سے اتنی بات کہہ دینا ممنوع نہیں ہے کہ صاحب خانہ گھر میں موجود نہیں ہیں (یہ روایات ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نقل کی ہیں )۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خالہ امیمہؓ بنت رقیقہ سے حضرت عبد اللہؓ بن عمرو بن العاص نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورؐ نے ان سے یہ عہد لیا کہ نوحہ نہ کرنا اور جاہلیت کے اسے بناؤ سنگھار کر کے اپنی نمائش نہ کرنا مسند احمد، ابن جریر)۔
حضورؐ کی ایک خالہ سلمٰی بنت قیس کہتے ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ بیعت کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے قرآن کی اس آیت کے مطابق ہم سے عہد لیا پھر فرما یا ولا تغششنازواجکن ’’ اپنے شوہروں سے دھوکے بازی نہ کرنا‘‘ جب ہم واپس ہونے لگیں تو ایک عورت نے مجھ سے کہا کہ جاکر  حضورؐ سے پوچھو شوہروں سے دھکے بازی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ میں نے جاکر پوچھا تو آپؐ نے فرمایا  تاخص مالہ فتحابی بہ غیرہ ’’یہ کہ تو اس کا مال لے اور دوسروں پر لٹائے‘‘ (مسند احمد)۔
ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ نے بیعت لینے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین کی جماعت میں حاضر ہوا کریں گی البتہ جمعہ ہم پر فرض نہیں ہے، اور جنازوں کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرما دیا(ابن جریر)۔

جو لوگ حضور کے اس آئینی اختیار کو آپ کی حیثیت رسالت کے بجائے حیثیت امارت سے متعلق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ چونکہ اپنے وقت کے حکمراں بھی تھے اس لیے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو احکام دیئے وہ صرف آپ کے زمانے تک ہی واجب الاطاعت تھے، وہ بڑی جہالت کی بات کہتے ہیں۔ اوپر کی سطور میں ہم نے حضورؐ کے جو احکام نقل کیے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ ان میں عورتوں کی اصلاح کے لیے جو ہدایات آپ نے دی ہیں وہ اگر محض حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے ہوتیں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوری دنیا کے مسلم معاشرے کی عورتوں میں یہ اصلاحات کیسے رائج ہو سکتی تھیں؟  آخر دنیا کا وہ کونسا حاکم ہے جس کو یہ مرتبہ حاصل ہو کہ ایک مرتبہ اس کی زبان سے ایک حکم صادر ہو اور روئے زمین پر جہاں جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں کے مسلم معاشرے میں ہمیشہ کے لیے وہ اصلاح رائج ہو جائے جس کا حکم اس نے دیا ہے؟( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حشر، حاشیہ 15)۔