اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الممتحنۃ حاشیہ نمبر۷

دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے حضرت ابراہیم کی یہ بات تو قابل تقلید ہے کہ انہوں نے اپنی کافر و مشرک قوم سے صاف صاف بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کر دیا، مگر ان کی یہ بات تقلید کے قابل بہیں ہے کہ انہوں نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کا وعدہ کیا اور عملاً اس کے حق میں دعا کی۔ اس لیے کہ کافروں کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا اتنا تعلق بھی اہل ایمان کو نہ رکھنا چاہیے۔ سورہ توبہ (آیت 113) میں اللہ تعالیٰ کا صاف صاف ارشاد ہے : مَا کَا نَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُ وْ ا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُولِیْ قُرْبیٰ۔ ’’ نبی کا یہ کام نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کو یہ زیبا ہے جو ایمان لائے ہیں کہ مُشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں، خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ‘‘۔ پس کوئی مسلمان اس دلیل سے اپنے کافر عزیزوں کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں ہے کہ یہ کام حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا۔ رہا سوال کہ خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ کام کیسے کیا؟ اور کیا وہ اس پر قائم بھی رہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں ہم کو پوری تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے باپ نے جب ان کو گھر سے نکال دیا تو چلتے وقت انہوں نے کہا تھا سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ، ’’ آپ کو سلام ہے، میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘ (مریم، 147۔ اسی وعدے کی بنا پر انہوں نے دو مرتبہ اس کے حق میں دعا کی۔ ایک دعا کا ذکر سورہ ابراہیم(آیت 41) میں ہے : رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَلِدَیَّ وَ لِلْمُؤْ مِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الحِسَابْ۔  ’’اے ہمارے پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب مومنوں کو اس روز معاف کر دیجیو جب حساب لیا جانا ہے ‘‘۔ اور دوسری دعا سورہ ؃شعَراء (آیت 86) میں ہے : وَاغْفِرْلِاَبِیْ اِنَّہٗ کَانَمَنَالضَّآ لِّیْنَ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ۔ ’’ میرے باپ کو معاف فرما دے کہ وہ گمراہوں میں سے تھا اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ‘‘۔ لیکن بعد میں جب ان کو یہ احساس ہو گیا کہ اپنے جس باپ کی مغفرت کے لیے وہ دعا کر رہے ہیں وہ تو اللہ کا دشمن تھا، تو انہوں نے اس سے تبرّی کی اور اس کے ساتھ ہمدردی و محبت کا یہ تعلق بھی توڑ لیا:
وَمَا کَانَ اسْتِغْفَا رُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْ عِدَۃٍ وَّ عَدَھَا اِیَّاہُ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ  اَنَّہٗ  عَدُوٌّ  لِّلّٰہِ تَبَرَّ أ مِنْہُ، اِنَّ اَبْرَھِیْمَلَاَوَّ اہٌ حَلِیْمٌ o (التوبہ 114)
اور ابراہیمؑ کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھا کہ ایک وعدہ تھا جو اس نے اپنے باپ سے کر لیا تھا۔ پھر جب اس پر یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ الہہ کا دشمن تھا تو اس نے اس سے بیزاری کا اظہار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم ایک رقیق القلب اور نرم خو آدمی تھا۔
ان آیات پر غور کرنے سے یہ اصولی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء کا صرف وہی عمل قابل تقلید ہے جس پر وہ آخر وقت تک قائم رہے ہوں۔ رہے ان کے وہ اعمال جن کو انہوں نے بعد میں خود چھوڑ دیا ہو، یا جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم نہ رہنے دیا ہو، یا جن کی ممانعت اللہ کی شریعت میں وارد ہو چکی ہو، وہ قابل تقلید نہیں ہیں اور کوئی شخص اس حجت سے ان کے ایسے اعمال کی پیروی نہیں کر سکتا کہ یہ فلاں نبی کا عمل ہے۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو آدمی ذہن میں کھٹک پیدا کر سکتا ہے۔ آیت زیر بحث میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے جس قول کو قابل تقلید نمونہ ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا ’’ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا‘‘۔ اور دوسرا حصہ یہ کہ ’’ میرے بس میں کچھ نہیں ہے کہ اللہ سے آپ کو معافی دلوا دوں ‘‘۔ ان میں سے پہلی بات کا قابل تقلید نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر دوسری بات میں کیا خرابی ہے کہ اسے بھی نمونہ قابل تقلید ہونے سے مستثنیٰ کر دیا گیا؟ حالانکہ وہ بجائے خود حق بات ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا یہ قول استثناء میں اس وجہ سے داخل ہوا ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ایک کام کا وعدہ کرنے کے بعد یہ کہتا ہے کہ اس سے زیادہ تیرے لیے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر اس سے زیادہ کچھ کرنا اس کے بس میں ہوتا تو وہ شخص اس کی خاطر وہ بھی کرتا۔ یہ بات اس آدمی کے ساتھ اس شخص کے ہمدردانہ تعلق کو اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیمؑ کا یہ دوسرا قول بھی استثناء میں شامل کیے جانے کا مستحق تھا، اگرچہ اس کا یہ مضمون بجائے خود برحق تھا کہ اللہ سے کسی کی مغفرت کروا دینا ایک نبی تم کے اختیار سے باہر ہے۔ علامہ آلوسی نے بھی روح المعانی میں اس سوال کا یہی جواب دیا ہے۔