اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الصّف حاشیہ نمبر۳

اس سے اول تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرہ سہنے کے لیے تیار ہوں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے ۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے ۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں ا سکی کیفیت ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘ کی سی ہو۔ پھر یہ آخری صفت بجائے خود اپنے اندر معنی کی ایک دنیا رکھتی ہے ۔ کوئی فوج اس وقت تک میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حسب ذیل صفات پیدا نہ ہو جائیں :
عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے ۔
ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد جو کبھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا کہ سب فی الواقع اپنے مقصد میں مخلص اور ناپاک اغراض سے پاک ہوں ۔ ورنہ جنگ جیسی سخت آزمائش کسی کا کھوٹ چھپا رہنے نہیں دیتی اور اعتماد ختم ہو جائے تو فوج کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے بلکہ الٹا ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں ۔
اخلاق کا ایک بلند معیار، جس سے اگر فوج کے افسر اور سپاہی نیچے گر جائیں تو ان کے دل میں نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ عزت، اور نہ وہ آپس میں متصادم ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔
اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور ایسے حاصل کرنے ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جانبازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے ۔

یہی تھیں وہ بنیادیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں ایک ایسی زبردست عسکری تنظیم اٹھی جس سے ٹکرا کر بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو گئیں اور صدیوں تک دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہ تھیر سکی۔