اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الصّف حاشیہ نمبر۹

اصل میں لفظ سِحْر استعمال ہوا ہے ۔ سحر یہاں جادو کے نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے معنی میں استعمال ہو ہے ۔ عربی لغت میں جادو کی طرح اس کے یہ معنی بھی معروف ہیں ۔ کہتے ہیں سَحَرَہٗ ای خَدَ عَہٗ ’’اس نے فلاں شخص پر سحر کیا، یعنی اس کو فریب دیا’’۔ دل چھین لینے والی آنکھ کو عین ساحرۃ کہا جاتا ہے ، یعنی ’’ساحر آنکھ‘‘۔ جس زمین میں ہر طرف سراب ہی سَراب نظر آئے اس کو ارض ساحرۃ کہتے ہیں ۔ چاندی کو ملمع کر کے سونے جیسا کر دیا جائے تو کہتے ہیں سُحرت الفضّۃُ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نبی، جس کے آنے کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی، اپنے نبی ہونے کی بین نشانیوں کے ساتھ آگیا تو بنی اسرائیل اور امت عیسیٰ نے اس کے دعوائے نبوت کو صریح فریب قرار دیا۔