اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المنٰفقون حاشیہ نمبر۱

یعنی جو بات وہ زبان سے کہہ رہے ہیں وہ ہے تو بجائے خود سچی، لیکن چونکہ ان کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان  سے ظاہر کر رہے ہیں ،اس لیے اپنے اس قول میں وہ جھو ٹے ہیں کہ وہ آپ کے رسول ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شہادت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک وہ اصل بات جس کی شہادت دی جائے۔ دوسرے اس بات کے متعلق شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اب اگر بات بجائے خود بھی سچی ہو، اور شہادت دینے والے کا عقیدہ بھی  وہی ہو جس کو وہ زبان سے بیان کر رہا ہو، تو ہر لحاظ سے وہ سچا ہو گا۔ اور اگر بات اپنی جگہ جھوٹی ہو، لیکن شہادت دینے والا اسی کے حق ہونے کا عقیدہ بیان کرنے میں صادق ہے ، اور ایک دوسرے لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے ، کیونکہ جس بات کی وہ شہادت دے رہا ہے وہ بجائے خود غلط ہے۔ اس کے برعکس اگر بات اپنی جگہ سچی ہو لیکن شہادت دینے والے کا اپنا عقیدہ اس کے خلاف ہو، تو ہم اس لحاظ سے اس کو سچا کہیں گے کہ وہ صحیح بات کی شہادت دے رہا ہے ، اور اس لحاظ سے اس کو جھوٹا کہیں گے کہ اس کا اپنا عقیدہ وہ نہیں ہے جس کا وہ زبان سے اظہار کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مومن اگر اسلام کو بر حق کہے تو وہ ہر لحاظ سچا ہے۔ لیکن ایک یہودی اپنی یہودیت پر قائم رہتے ہوئے اس دین کو اگر بر حق کہے تو بات اس کی سچی ہو گی مگر شہادت اس کی جھوٹی قرار دی جائے گی، کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف شہادت دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اس دین کو باطل کہے ، تو ہم کہیں گے کہ بات اس کی جھوٹی ہے ، مگر شہادت وہ اپنے عقیدے کے مطابق سچی دے رہا ہے۔