اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ المنٰفقون حاشیہ نمبر۲

یعنی اپنے مسلمان اور مومن ہونے کا یقین دلانے کے لیے جو قَسمیں وہ کھاتے ہیں ، ان سے وہ ڈھال کا کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے غصے سے بچے رہیں اور ان کے ساتھ مسلمان وہ برتاؤ نہ کر سکیں جو کھُلے کھُلے دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔

ان قَسموں سے مراد وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو وہ بالعموم اپنے ایمان کا یقین دلانے کے لیے کھایا کرتے تھے ، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو اپنی کسی منافقانہ حرکت کے پکڑے جانے پر وہ کھاتے تھے  تاکہ مسلمانوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ حرکت انہوں نے منافقت کی بنا پر نہیں کی تھی، اور وہ قَسمیں بھی ہو سکتی ہیں جو عبداللہ بن ابی نے حضرت زید بن اَرقم کی دی ہوئی خبر کو جھٹلانے کے لیے کھائی تھیں۔ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کو قَسم قرار دیا ہو کہ ’’ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘‘۔ اس آخری احتمال کی بنا پر رقہاء کے درمیان یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ کوئی شخص ’’ میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہہ کر کوئی بات بیان کرے تو آیا اسے قَسم یا حلف (Oath) قرار دیا جائے گا یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے اصحاب (امام زُفَر کے سوا) اور امام سفیان ثوری اور امام اَوزاعی اسے حلف (شرعی اصطلاح میں یمین ) قرار دیتے ہیں۔ امام زفر کہتے ہیں کہ یہ حلف نہیں ہے۔ امام مالک سے دو قول مروی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مطلقاً حلف ہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر اس نے ’’ شہادت دیتا ہوں ‘‘ کے الفاظ کہتے وقت بیت یہ کی ہو کہ ’’خدا کی قَسم میں شہادت دیتا ہوں ‘‘، یا ’’ خدا کو گواہ کر کے میں شہادت دیتا ہوں ‘‘ تو اس صورت میں یہ حلفیہ بیان ہو گا ورنہ نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اگر کہنے والا یہ الفاظ بھی کہے کہ میں ’’ خدا کو گواہ کر کے شہادت دیتا ہوں ‘‘ تب بھی اس کا یہ بیان حلفیہ بیان نہ ہو گا، الا یہ الفاظ اس نے حلف اٹھانے کی نیت سے کہے ہوں (احکام القرآن للجصاص۔ احکام القرآن لابن العربی)۔