اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التغابن حاشیہ نمبر۱۲

یہ تھی ان کی تباہی کی اولین اور بنیادی وجہ۔ نوع انسانی کو دنیا میں صحیح راہ عمل اس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کا خالق اسے صحیح علم دے ، اور خالق کی طرف سے علم دیے جانے کی عملی صورت اس کے سوا کچھ نہ ہو سکتی تھی کہ وہ انسانوں ہی میں سے بعض افراد کو علم عطا کر کے دوسروں تک اسے پہنچانے کی خدمت سپرد کرے۔ اس غرض کے لیے اس نے انبیاء کو بینات  کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگوں کے لیے ان کے بر حق ہونے میں شک کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ رہے۔مگر انہوں نے سرے سے یہی بات ماننے سے انکار کر دیا کہ بشر خدا کا رسول ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ یٰس، حاشیہ  11 )۔ اس معاملہ میں گمراہ انسانوں کی جہالت و نادانی کا یہ عجیب کرشمہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ بشر کی رہنمائی قبول کرنے میں تو انہوں نے کبھی تامل نہیں کیا ہے ، حتیٰ کہ ان ہی کی رہنمائی میں لکڑی اور  پتھر کے بتوں تک کو معبود بنایا، خود انسانوں کو خدا اور خدا کا اوتار اور  خدا کا بیٹا تک مان لیا،اور گمراہ کن لیڈروں کی اندھی پیروی میں ایسے ایسے عجیب مسلک اختیار کر لیے جنہوں نے انسانی تہزیب و تمدن اور خلاق کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔ مگر جب خدا کے رسول ان کے پاس حق لے کر آئے اور انہوں نے ہر ذاتی غرض سے بالا تر ہو کر بے لاگ سچائی ان کے سامنے پیش کی تو انہوں نے کہا ’’ کیا با بشر ہیں ہدایت دیں گے ’’؟ اس کے معنی یہ تھے کہ نشر اگر گمراہ کرے تو سر آنکھوں پر، لیکن اگر وہ راہ راست دکھاتا ہے تو اس کی رہنمائی قابل قبول نہیں ہے۔