اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۲۳

’’ اُنہی کے مانند‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جتنے آسمان بنائے اُتنی ہی زمینیں بھی بنائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ اور ’’ زمین کی قسم سے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں۔ بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں، عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم۔الشوریٰ، آیت 29، حاشیہ 50)۔بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بے شمار تارے اور سیارے نظر آتے ہیں، یہ سب ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں۔
قدیم مفسرین میں سے صرف ابن عباسؓ ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے ۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے ، کجا کہ 14 سو برس پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کر سکتے ۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ مجاہد کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’ اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کروں تو تم کافر ہو جاؤ گے اور تمہارا کفر یہ ہوگا کہ اسے جھٹلاؤ گے ‘‘۔ قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’ کیا بھروسا کیا جاسکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتاؤں تو تم کافر نہ ہو جاؤ گے ‘‘۔(ابن جریر۔ عبد بن حمید)۔ تاہم ابن جریر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ، اور شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات میں بیہقی نے ابو الضحٰی کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ : فی کلِّ ارضٍ نبیٌّ کنبیِّکم و اٰدمُ کَاٰ دَمَ و نوحٌ کنوجٍ و ابراہیم کا ابراھیم و عیسیٰ کعیسیٰ‘‘۔ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبیؐ جیسا اور آدم ہے تمہارے آدمؑ جیاسا اور نوح ہے تمہارے نوحؑ جیسا، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیمؑ جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰؑ جیسا‘‘۔ اس روایت کو ابن حجرؒ نے فتح لاباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے ۔ اور امام ذہنی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ میرے علم میں ابو الضحٰی کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے ، اس لیے یہ بالکل شاذ روایت ہے ۔ بعض دوسرے علماء نے اسے کذب اور موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری نے اس کو موضوعات کبیر(ص 19) میں موضوع کہتے ہوئے لکا ہے کہ اگر یہ ابن عباس ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے ، ورنہ بجائے خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ اور ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم علیہ السلام ممتاز ہیں‘‘۔ آگے چل کر علامہ موصوف کہتے ہیں’’ ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں۔ سات کے عدد پر، جو عدد تام ہے ، اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو‘‘۔ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں : ھومن باب التقریب لِلا فْھام، یعنی اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے ، بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً 60 کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے چلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو (اکانومسٹ، لندن۔ مورخہ 26 جولائی 1969ء)۔