اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ الطلاق حاشیہ نمبر۹

سیاق کلام  خود بتا رہا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا مطلب سنت کے مطابق طلاق دینا، عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھنا، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا، عدت کے اختتام پر عورت کو روکنا ہو تو نباہ کرنے کی نیت سے رجوع کرنا اور علیحدگی ہی کرنی ہو تو بھلے آدمیوں کی طرح اس کو رخصت کر دینا، اور طلاق، رجوع یا مفارقت، جو بھی ہو، اس پر وہ عادل آدمیوں کو گواہ بنا لینا ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اس طرح تقویٰ سے کام لے گا اس کے لیے ہم کوئی مخرج(یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ) نکال دیں گے ۔ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ان امور میں تقویٰ سے کام نہ لے گا وہ اپنے لیے خود ایسی الجھنیں اور مشکلات پیدا کر لے گا جن سے نکلنے کا کوئی راستہ اسے نہ مل سکے گا۔

ان الفاظ پر غور کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک طلاق بدعی سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی اور جو لوگ بیک وقت یا ایک ہی طہر میں دی ہوئیں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں، ان کی رائے صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر طلاق بدعی واقع ہی نہ ہو تو سرے سے کوئی الجھن پیش نہیں آتی جس سے نکلنے کے لیے کسی مخرج کی ضرورت ہو۔ اور اگر تین طلاق اکٹھی دے بیٹھنے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہو، تب بھی مخرج کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں آخر وہ پیچیدگی کیا ہے جس سے نکلنے کے لیے کسی راستے کی حاجت پیش آئے ؟