سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۲ |
|
اس سے معلوم ہوا کہ حضور ؐ نے تحریم کا یہ فعل خود اپنی کسی خواہش کی بنا پر نہیں کیا تھا بلکہ آپ ؐ کی بیویوں نے یہ چاہا تھا کہ آپ ؐ ایسا کریں اور آپ ؐ نے محض اُن کو خوش کرنے کے لیے ایک حلال چیز اپنے لیے حرام کر لی تھی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تحریم کے اِس فعل پر ٹوکنے کے ساتھ اُس کی اِس وجہ کا ذکر خاص طور پر کیوں فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اگر مقصودِ کلام صرف تحریمِ حلال سے آپ کو باز رکھنا ہوتا تو یہ مقصد پہلے فقرے سے پورا ہو جاتا تھا اور اس کی ضرورت نہ تھی کہ جس وجہ سے آپ نے یہ کام کیا تھا اُس کی بھی تصریح کی جاتی۔ اُس کو بطورِ خاص بیان کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصد صرف حضور ؐ ہی کو تحریم حلال پر ٹوکنا نہیں تھا بلکہ ساتھ ساتھ ازواجِ مطہرات کو بھی اس بات پر متنبہ کرنا تھا کہ اُنہوں نے ازواجِ نبی ہونے کی حیثیت سے اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا اور حضور ؐ سے ایک ایسا کام کرا دیا جس سے ایک حلال چیز کے حرام ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔
|