اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ التحریم حاشیہ نمبر۵

یعنی اللہ تمہارا آقا اور تمہارے معاملات کا متولّی ہے۔ وہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ تمہاری بھلائی کس چیز میں ہے اور جو احکام بھی اُس نے دیے ہیں سراسر حکمت کی بنا پر دیے ہیں۔ پہلی بات ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ تم خود مختار نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور وہ تمہارا آقا ہے، اس لیے اس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں میں ردّو بدل کرنے کا اختیار تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تمہارے لیے حق یہی ہے کہ اپنے معاملات اس کے حوالے کر کے بس اُ س کی اطاعت کرتے رہو۔ دوسری بات ارشاد فرمانے سے یہ حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ اللہ نے جو طریقے اور قوانین مقرر کیے ہیں وہ سب علم و حکمت پر مبنی ہیں۔ جس چیز کو حلال کیا ہے علم وحکمت کی بنا پر حلال کیا ہے اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے بھی علم و حکمت کی بنا پر حرام قرار دیا ہے۔ یہ کوئی اَلل ٹپ  کام نہیں ہے کہ جسے چاہا حلال کر دیا اور جسے چاہا حرام ٹھیرا دیا۔ لہٰذا جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ علیم و حکیم ہم نہیں ہیں بلکہ اللہ ہے  اور ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس کے دیے ہوئے احکام کی پیروی کریں۔