اس رکوع کو چھاپیں

سورة الملک حاشیہ نمبر۴

یعنی دنیا میں انسانوں کے مرنے اور جینے کا یہ سلسلہ اُس نے اِس لیے شروع کیا ہے کہ اُن کا امتحان لے اور یہ دیکھنے کہ کس انسان کا عمل زیادہ بہتر ہے ۔ اس مختصر سے فقرے میں بہت سی حقیقتوں کا طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ اول یہ کہ موت اور حیات اُسی کی طرف سے ہے ، کوئی دوسرا نہ زندگی بخشنے والا ہے  نہ موت دینے والا۔ دوسرے یہ کہ انسان جیسی ایک مخلوق، جسے نیکی اور بدی کرنے کی قدرت عطا  کی گئی ہے ، اُس کی نہ زندگی بے مقصد ہے نہ  موت۔ خالق نے اُسے یہاں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ زندگی اُس کے لیے امتحان کی مہلت ہے اور موت کے معنی یہ ہیں کہ اُس کے امتحان کا وقت ختم ہو گیا ۔ تیسرے یہ کہ اِسی امتحان کی غرض سے خالق نے ہر ایک کو عمل کا موقع دیا ہے تا کہ وہ دنیا میں کام کر کے اپنے اچھائی یا برائی کا اظہار کر سکے اور عملاً یہ دکھاوے کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ چوتھے یہ کہ خالق ہی دراصل اِس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کس کا علم اچھا ہے اور کس کا بُرا۔ اعمال کی اچھائی اور بُرائی کا معیار تجویز کرنا امتحان دینے والوں کا کام نہیں ہے بلکہ امتحان لینے والے کا کام ہے ۔ لہٰذا جو بھی امتحان میں کامیاب ہونا چاہے اُسے یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ممتحن کے نزدیک محسن عمل کیا ہے۔ پانچواں نکتہ خود امتحان کے مفہوم میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کا جیسا عمل ہو گا اس کے مطابق اس کو جزا دی جائے گی، کیونکہ اگر جزا نہ ہو تو سرے سے امتحان لینے کے کوئی معنی ہی نہیں رہتے ۔