اس رکوع کو چھاپیں

سورة الملک حاشیہ نمبر۸

”اصل میں لفظ فُطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ، شگاف ، رخنہ، پھٹا ہواہونا ، ٹوٹا پھوٹا ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ پُوری کائنات کی بندش ایسی چُست ہے ، اور زمین کے ایک ذرّے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں نظم ِ کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، تفسیر سورہ ق، حاشیہ۸)۔