اس رکوع کو چھاپیں

سورة القلم حاشیہ نمبر۲

یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جا کا تبین وحی ے ہاتھوں سے ثبت ہورہا ہے ، بجائے خود کفار کے اس بہتا ن کی تردید  کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ  رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہیں۔ حضورؐ کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہلِ مکہ آپ  کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت  و امانت اور عقل و فراست ہر اعتماد  رکھتے تھے ۔ مگر جب آپ نے اُن کے سامنے قرآن  پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی اُن کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر اُنہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اِس تُہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے ۔ یہ اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ کلام، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے، اِ س کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فصل ہوا ہے، کجا کہ اسے اس امر کی دلیل بنا یا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہوگئے  ہیں۔ اس مقام پر بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن اصل مقصود و کفار کو ان کی تُہمت کا جواب دینا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضورؐ کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضورؐ کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دُور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضروت ہوتی۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اُس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ طور، حاشیہ۲۲)۔