اس رکوع کو چھاپیں

سورة القلم حاشیہ نمبر۹

اصل میں لفظ زَنِیْم استعمال ہوا ہے ۔ کلامِ عرب میں یہ لفظ  اُس ولدالزنا کے لیے  بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کافر ونہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔ سعید بن جُبَیر ا ور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اُس شخص کے لیےبھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو۔

           اِن آیت میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اُس کےبارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ کسی نے کہا ہےکہ یہ شخص وَلید بن مغیرہ تھا۔ کسی نے اَسْود بن عَبدِ لَغُیوث کا نام لیا ہے ۔ کسی نے اَخْنَس بن شُرَیق کو اس کا مصداق ٹھیرا یا ہے ۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اُس کے اوصاف بیان کر دیے گئے ہیں۔ اِس سے معلو م ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے اِن اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کانام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے۔