اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ جن حاشیہ نمبر۱۰

اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ بالا میں اِس قسم کے غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں میں کیے جاتے تھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الہیٰ یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جِن اُس کی بِھنَک پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کر دیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے اِن انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں اُن میں نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کر سکیں اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کر سکیں کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں۔ پس جِنوں کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے اسمان میں یہ چوکی پہرے دیکھے اور شہابوں کی اِس بارش کا مشاہدہ کیا توہمیں  یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت در پیش ہے۔ آیا اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی قوم پر یکایک عذاب نازل کر دیا ہے؟ یا کہیں کوئی رسول مبعوث ہوا ہے؟ اسی تلاش میں ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ اللہ نے عذاب نازل نہیں کیا ہے بلکہ خلق کو راہِ راست دکھانے کے لیے ایک رسول مبعوث فرمادیا ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی۸تا ۱۲۔جلد چہارم، الصّافّات، حا شیہ۷،جلد ششم، المُلک، حاشیہ۱۱