اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ جن حاشیہ نمبر۲

اصل الفاظ میں قُرُاٰناً عَجَبًا۔ قرآن کے معنی ہیں۔”پڑھی جانے والی چیز“اور یہ لفظ غالبًا جِنوں نے اِسی معنی میں ا ستعمال کیا ہوگا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اُس وقت اُن کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ جو چیز وہ سُن رہے ہیں اس کا نام قرآن ہی ہے۔ عَجَب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ پس جِنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سُن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔

          اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جِن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے بھی ہیں۔ اگر چہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جِن تمام انسانی زبانیں جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ اُن میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اُسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں۔ لیکن قرآن کے اِس بیان سے بہر حال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جِن جنہوں نے اُس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اتنی اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اِس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اُس کے بلند پا یہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا۔