اس رکوع کو چھاپیں

سورۃ جن حاشیہ نمبر۷

ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سُنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پُکار کر کہتے”ہم اِس وادی کے مالک جِن کی پناہ مانگتے ہیں“۔ عہدِ جاہلیت کی دوسری روایات میں بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدّو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اُس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اُترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے”کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تا کہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں“۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھیر جائے تو وہ جن یا تو خود ستا تا ہے یا دوسرے جِنوں کو ستانے دیتا ہے ۔ اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جِن اشارہ کر رہے ہیں۔ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے اُلٹا ہم سے ڈرنا شروع کر دیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا، ان کا کبروغرور اور کفر وظلم اور زیادہ بڑھ گیا، اور وہ گمراہی میں زیادہ جری ہو گئے۔