اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۲۰

بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آجائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل  یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں  یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے ۱۹ فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق ا استہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء  کی شانسے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہےکہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہا یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکح کر انہیں یقین آجائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجِک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا ظارہ ہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو  سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔