اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۲۴

یعنی اس طرح اللہ تعالیؒ اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرمادیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکلا کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ  اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلات ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھیجچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات  ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، ابقرہ،حواشی۲۰،۱۹،۱۶،۱۰۔النساء،حاشیہ۱۷۳۔الانعام،حواشی۹۰،۲۸،۱۷ جلد دوم، یونس،حاشیہ۱۳۔جلد سوم،الکہف،حاشیہ۵۴۔القصص،حاشیہ۷۱)۔