اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۳۹

یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے یہ مطالبے پُورے نہیں کیے جاتے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں۔ انہوں نے سب چکھ اسی دنیا  کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں  ہے کہ اِس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں اِن کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اسی چیز نے اِن کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمّہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے  معنی سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازماً دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو، اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور بُرا  ہی نکلا کرتا ہو۔ اس لیے یہ اِس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابلِ غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اُس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا ناجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً بُرا ہوگا۔ ایسا شخص تو اُن معقول دلائل اور اُن پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاشِ حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نتِ نئے مطالبے پیش کرے گا، حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈنکالے گا۔ یہی  بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ ”اے نبی، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اُتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق  کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے“(الانعام،۷)۔