اس رکوع کو چھاپیں

سورة المدثر حاشیہ نمبر۷

یعنی یہ کام جو تمہارے سُپر د کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے ، اپنے رب  کی خاطر اِس پر صبر کرنا  اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف، طمع، لالچ،دوستی، دشمنی،محبت ہر چیز تمہارے راستے  میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔

          یہ تھیں وہ اوّلین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اُس وقت دی تھیں جب اُس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغآز فرمادیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اِس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اِس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہییں، اور یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبر دار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصّب میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ صَرع کے دَوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری  ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر اِن فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صَرع کے کسی دَورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟