اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

سورة المدثر

 

                                                       
۲
۱
رکوع
                                                             

 

اس رکوع کو چھاپیں

Listenتعارف

نام : پہلی آیت کے لفظ الْمُدَّثِّر کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی صرف نام ہے، مضامین کا عنوان نہیں ہے۔

زمانۂ نزول :  اس کی پہلی سات آیات مکّہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ ہیں۔ بعض روایات جو بخاری، مسلم،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ ہیں حضرت جابر بن عبس اللہ سے منقول ہیں اُن میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کی اوّلین آیات ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر  نازل ہوئیں۔ لیکن امّت میں یہ بات قریب قریب با لاتفاق مسلم ہیں کہ پہلی وحی جو حضورؐ پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ سے مَا لَمْ یَعْلَمْ تک ہے۔ البتہ صحیح روایات سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اِس وحی کے بعد کچھ مدّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، پھر اس وقفہ کے بعد جب از سرِ نو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اُس کا آغاز سُورہ مُدَّثِّر کی اِنہی آیات سے ہوا تھا۔ امام زُہرْیؒ اِس کی تفصیل یُوں بیان کرتے ہیں:
”ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی  کا نزول بند رہا اور اُس زمانہ میں آپ پر اس قدر شدید غم کی کیفیت طاری رہی کہ بعض اوقات آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب کبھی آپ کسی چوٹی کے کنارے پر  پہنچتے جبریل علیہ السّلام نمودار ہو کر آپ سے کہتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہو جاتا تھا اور وہ اضطراب کی کیفیت دُور ہو جاتی تھی۔“(ابن جریر)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فَتْرۃُ الوحی(وحی بند رہنے کے زمانے) کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت  دہشت زدہ ہو گیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھا ؤ، مجھے اُڑھاؤ۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اُڑھادیا۔ اُس وقت اللہ نے وحی نازل کی یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ....۔ پھر لگا تار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا“۔(بخاری۔ مسلم۔مُسنَد احمد۔ ابن جریر)۔
سوُرۃ کا باقی ماندہ حصہ آیت ۸ سے آخر تک اُس وقت نازل ہوا جب اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع ہو جانے کے بعد مکّہ میں پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا۔ اس کا مفصل واقعہ سیرت ابنِ ہشام میں بیان کیا گیا ہے جسے آگے چل کر ہم نقل کریں گے۔

موضوع اور مضمون:جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو بھیجی گئی تھی وہ سورہ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل تھی جس میں صرف یہ فرمایاگیا تھا کہ :
”پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا ہے جسے وہ نہ جانتا تھا۔“
یہ نزول وحی کا پہلا تجربہ تھا جو اچانک حضور ؐ کو پیش آیا تھا ۔ اِس پیغام میں آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کس کا رِ عظیم پر مامور ہوئے ہیں اور آگے کیا کچھ آپ کو کرنا ہے، بلکہ صرف ایک ابتدائی تعارف کرا کے آپ کو کچھ مدّت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا تا کہ آپ کی طبیعت پر جو شدید بار اِس پہلے تجر بے سے پڑا ہے اس کا (اثر دُور ہو جائے اور آپ ذہنی طور پر آئندہ وحی وصول کرنے اور نبوت کے فرائض سنبھالنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس وقفہ کے بعد جب دوبارہ نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اِس سورہ کی ابتدائی سات آیتیں نازل کی گئیں اور ان میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ اٹھیں اور خلقِ خدا کو اُس روش کے انجام سے ڈرائیں جس پر وہ چل رہی ہے، اور اِس دنیا میں ، جہاں دوسروں کی بڑائی کے ڈنکے بج رہے ہیں، خدا کی بڑائی کا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ اب جو کام آپ کو کرنا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی پا کیزہ ہو اور آپ تمام دنیوی فائدوں سے قطع نظر کر کے کامل اخلاص کے ساتھ خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ پھر آخڑی فقرے میں آپ کی تلقین کی گئی کہ اِس فریضہ کی انجام  دہی میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن پر آپ اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔
اس فرمانِ الہٰی کی تعمیل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور قرآن مجید کی پے در پے نازل ہونے والی سورتوں کو آپ نے سنانا شروع کیا تو مکّہ میں کھلبلی مچ گئی اور مخالفتوں کا  ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ چند مہینے اِس حال پر گزرے تھے کہ حج کا زمانہ آگیا اور مکّہ کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو ئی کہ اِس موقع پر تمام عرب سے حاجیوں کے قافلے آئیں گے ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن قافلوں کی قیام گاہوں پر جا جا کر آنے والے حاجیوں سے ملاقاتیں کیں اور حج کے اجتماعات میں جگہ جگہ کھڑے ہو کر قرآن  جیسا بے نظیر اور مؤثر کلام سنانا شروع کر دیا، تو عرب کےہر گوشے تک ان کی دعوت پہنچ جائے گی اور نہ معلوم کون کون اِس سے متاثر ہو جائے۔ اس لیے قریش کے سرداروں نےایک کانفرنس کی جس میں طے کیا گیا  کہ حاجیوں کے آتے ہی اُن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پر وپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔اِس پر اتفاق ہو جانے کے بعد ولید بن مُغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کے متعلق مختلف باتیں لوگوں سے کہں تو ہم سب کا اعتبار جاتا رہے گا۔ اس لیے کوئی ایک بات طے کر لیجیے جسے سب با لاتفاق کہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا، نہیں ، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہیں، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، جیسی باتیں وہ گُنگناتے ہیں اور جس طرح کے فقرے وہ جوڑتے ہیں، قرآن کو ان سے  کوئی  دُور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کچھ اور لوگ بولے، انہیں مجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا وہ مجنون بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دیوانے اور پاگل دیکھے ہیں۔ اس حالت میں آدمی جیسی بہکی بہکی باتیں اور الٹی سیدھی حرکات کرتا ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ کون باور کرے گا کہ محمدؐ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ دیوانگی کی بڑ ہے یا جنون کے دورے میں آدمی  یہ باتیں کر سکتا ہے؟ لوگوں نے کہا اچھا تو پھر ہم شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ، وہ شاعر بھی نہیں ہیں۔ ہم شعر کی ساری اقسام سے واقف ہیں۔ اِس کلام پر شاعری کی قسم کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا۔ لوگ بولے، تو ان کو ساحر کہا جائے۔ ولید نے کہا وہساحر بھی نہیں ہیں۔ جادوگروں کو ہم جانتے ہیں اور اپنے جادو کے لیے جو طریقے وہ اختیار کرتے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ یہ بات بھی محمد ؐ پر چسپا ں نہیں ہوتی ۔ پھر  ولید نے کہا اِن باتوں میں سے جو بات بھی کرو گے لوگ اس کو نارواالزام سمجھیں گے۔ خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت ہے، اس کی جڑ بڑی گہری اور اس کی ڈالیاں بڑی ثمر دار ہیں۔ اس پر ابو جہم ولید کے سر ہوگیا اور اس نے کہا تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہو گی جب تک تم محمد ؐ کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دو۔ پھر سوچ سوچ کر بولا قریب ترین بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم عرب کے لوگوں سے کہو یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو آدمی کو اُس کے بات، بھائی، بیوی بچو ں اور سارے خاندان سے جدا کردیتا ہے۔ ولید کی اِس بات کو سب نے قبول کر لیا۔ پھر ایک منصوبے کے مطابق حج کے زمانے میں قریش کے وفود حاجیوں کے درمیان پھیل گئے اور انہوں نے آنے والے زائرین کو خبر دار کرنا شروع کیا کہ یہاں ایک ایسا شخص اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو بڑا جادوگر ہے اور اس کا جادو خاندانوں میں تفریق ڈال دیتا ہے، اُس سے ہوشیار رہنا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خود ہی سارے عرب میں مشہور کر دیا(سیرۃ ابن ہشام، جلد اوّل، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹۔ اِس قصے کا یہ حصّہ کہ ابو جہل کے اصرار پر ولید نے یہ بات کہی تھی عِکْرِمہ کی روایت سے ابن جریرنے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے)۔
یہی واقعہ ہے جس پر اس سُورہ کے دوسرے حصّہ میں تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اُس کے مضامین کی ترتیب یہ ہے:
آیت ۸ سے ۱۰ تک منکرینِ حق کو خبر دار کیا گیا ہے کہ آج جو کچھ وہ کر رہے ہیں ا س کا بُرا انجام وہ قیامت کے روز دیکھ لیں گے۔
آیت ۱۱ سے ۲۶ تک ولید بن مُغِیرہ کا نام لیے بغیر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس شخص کو کیا کچھ نعمتیں دی تھیں اور اُنکا جواب اِس نے کیسی حق دشمنی کے ساتھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں اُص کی ذہنی کشمکس کی پُوری تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ ایک طرف دل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا، مگر دوسری طرف اپنی قوم میں اپنی ریاست ووجاہت کو بھی خطرے میں نہ ڈالنا چاہتا تھا ، اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ ایمان لانے سے باز رہا ، بلکہ کافی دیر تک اپنے ضمیر سے لڑنے جھگڑنے کے بعد آخر کار یہ بات بنا کر لا یا کہ خلق ِ خدا کو اِس کلام پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لیے اِسے جادو قرار دینا چاہیے۔ اُس کی اِس صریح بد باطنی کا بے نقاب کر کے فرمایاگیا ہے کہ اپنے اِس کرتوت کے بعد بھی یہ شخص چاہتا ہے کہ اِسے مزید انعامات سے نوازا جائے، حالانکہ اب یہ انعام کا نہیں بلکہ دوزخ کا سزاوار ہو چکا ہے۔
اس کے بعد آیت ۲۷ سے۴۸ تک دوزخ کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس اخلاق اور کر دار کے لوگ اس کے مستحق ہیں۔
پھر آیات ۴۹۔۵۳ میں کفار کے مرض کی اصل جڑ بتا دی گئی ہے کہ وہ چونکہ آخرت سے بے خوف ہیں اور اِسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ قرآن سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے شیر سے ڈر کر جنگلی گدھے بھاگے جا رہے ہوں ، اور ایمان لانے کے لیے طرح طرح کی غیر معقول شرطیں پیش کرتے ہیں، حالانکہ خٔاہ ان کی کوئی شرط بھی پوری کر دی جاِئے، انکارِ آخرت کے ساتھ وہ ایمان کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔
          آخر میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ خدا کو کسی کے ایمان کی کوئی ضروت نہیں پڑ گئی ہے کہ وہ اس کی شرطین پُوری کرتا پھرے۔ قرآن کو عام نصیحت ہے جو سب کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کر لے۔ خدا اِس کا مستحق ہے کہ لوگ اُس کی نافرمانی سے ڈریں، اور اسی یہ شان ہے کہ جو شخص بھی تقوٰی اور خدا ترسی کو رویّہ اختیار کر لے اسے وہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ پہلے کتنی ہی نافرمانیا ں کر چکا ہو۔

www.tafheemulquran.net